اکیسویں صدی کا آدمی

دنیا ترقیوں پہ ہے معبود کی قسم

انسان کر رہا ہے ترقی قدم قدم

رکھیں گے اس طرح قد بالا کو میڈیم

لمبے منش سے باندھ کے ناٹے کی اب قلم

ڈھل جائیں گے شباب سے پہلے جو اپنے سن

گملوں میں بوئے جائیں گے بچے بھی ایک دن

انساں نے آسمان پہ قبضہ دکھا دیا

اس آدمی کے خون کو اس میں چڑھا دیا

عورت کا مغز مرد کے سر پر لگا دیا

اس تجربے نے قیس کو لیلیٰ بنا دیا

بیمار دل کے آپ جو موٹر لگائیں گے

عاشق فراق یار میں بھونپو بجائیں گے

کچھ دن کے بعد اور کریں گے ترقیاں

لڑکے بنیں گے ٹین کے شیشے کی لڑکیاں

سر پر لگائی جائیں گی ڈیزل کی ٹنکیاں

اسٹارٹر کا کام کریں گی دولتیاں

کچھ دن کے بعد دیکھنا اسمارٹ ہو گیا

کک مارنے سے آدمی اسٹارٹ ہو گیا

سائنسی معجزات، اداؤں میں دیکھنا

کمپیوٹروں کا کام وفاؤں میں دیکھنا

پہیے لگائے جائیں گے پاؤں میں دیکھنا

آباد ہوں گے شہر خلاؤں میں دیکھنا

استاد اپنا مان کے شاعر مشین کو

گوڑیں گے ٹریکٹر سے غزل کی زمین کو

انسان کارٹون ہے پتلا ہنسی کا ہے

گردے ہمارے، جسم ترا، سر کسی کا ہے

افسوس کا مقام نہیں ہے خوشی کا ہے

پنڈت کے سر میں مغز کسی مولوی کا ہے

کوشش بھی کر رہے ہیں ہمیں اتحاد کی

انساں جڑوں کو کاٹ رہا ہے فساد کی

فولاد کی مشین حقیقت بتائے گی

کتنی ہے تیرے دل میں محبت بتائے گی

کیسے کٹے گی یہ شب فرقت بتائے گی

جو حال ہے شباب کا حالت بتائے گی

اب اپنی آرزو سے نہ ہم کو دبائیں گے

اب لڑکیوں کے نخرے کرینیں اٹھائیں گے

ہیٹر سے شعلہ حسن کا بھڑکایا جائے گا

اب عشق بھی مشین سے فرمایا جائے گا

شوہر بھی اک مشین ہے سمجھایا جائے گا

عاشق کو بھی مشین سے تڑپایا جائے گا

کچھ دن کے بعد دیکھنا سائنسی دین سے

جنت کو بھیجے جائیں گے مردے پلین سے

پوچھیں گے ہم سے لوگ تو ہم کیا بتائیں گے

کس شکل کا تھا آدمی فوٹو دکھائیں گے

بچوں کو مدرسوں میں نہ مرغا بنائیں گے

راکٹ بنا کے ان کو مدرس اڑائیں گے

دیں گے دعا بزرگ یہ طفل ذہین کو

بیٹا نظر لگے نہ تمہاری مشین کو

انسان کیا تھا، بھول نہ جائیں عزیز لوگ

انسان اور مشین میں رکھیں تمیز لوگ

بن کر مشین ہو گئے بے حد لذیذ لوگ

ممکن ہے پیٹھ پر لکھیں ہارن پلیز لوگ

ساغرؔ اگر مشین سے یوں ہی جڑیں گے لوگ

دائیں سے بائیں ہاتھ دکھا کر مڑیں گے لوگ

کمپیوٹروں سے جا کے مہورت لے آئیں گے

بھگوان کے بھجن بھی ریکارڈر سنائیں گے

پنڈت بیچارے روٹیاں کس شے کی کھائیں گے

مندر میں خالی بیٹھ کے گھنٹہ بجائیں گے

مطلب رہے گا کوئی نہ ملا کے دین سے

پڑھ لیں گے لوگ گھر پہ نمازیں مشین سے

جب سے حضور یہ کلیں ایجاد ہو گئیں

کتنی کلائیں ہاتھ کی برباد ہو گئیں

غنڈوں کے گھر چلی گئیں آباد ہو گئیں

کتنی ہی لڑکیاں یہاں ناشاد ہو گئیں

خط عاشقی کے لکھتی نہیں دل کے خون سے

ملنے کا وعدہ کرتی ہیں اب ٹیلیفون سے

تعلیم دے رہے ہیں تو وہ بھی مشین سے

پاتے ہیں اب سزائیں بھی قیدی مشین سے

مانا کہ کام ہوتا ہے جلدی مشین سے

مزدور کی خراب ہے مٹی مشین سے

موٹر ہے جن کے پاس وہ اہل یقین ہیں

پیدل ہیں جتنے لوگ وہ کوڑی کے تین ہیں

(1445) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saghar Khayyami. is written by Saghar Khayyami. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saghar Khayyami. Free Dowlonad  by Saghar Khayyami in PDF.