کار وحشت میں بھی مجبور ہے انساں اب تک

کار وحشت میں بھی مجبور ہے انساں اب تک

ہاتھ اپنا ہے اور اپنا ہی گریباں اب تک

دھجیاں میرے گریباں کی اڑی پھرتی ہیں

گونجتا ہے مرے نعروں سے بیاباں اب تک

کب سے میں کنج غم دل میں چھپا بیٹھا ہوں

یاد کرتی ہے مجھے شورش دوراں اب تک

میرے حصے میں بھی ہے دولت بیداریٔ شب

اک خلش سی ہے متاع غم پنہاں اب تک

بت کدہ ٹوٹ کے کعبے کی بنا ڈال گیا

دل جو اجڑا تو ہے اک عمر سے ویراں اب تک

تو گزر گاہ تمنا میں تھا اک پرتو ماہ

میں اندھیروں میں بھٹکتا ہوں ہراساں اب تک

تو وہ سورج تھا کہ موسم کی نہ تھی تجھ کو خبر

میں ہوں آندھی میں چراغ تہ داماں اب تک

میرے احساس کی گرمی مرے دل کی برسات

سب رتیں ہیں تری آنکھوں سے نمایاں اب تک

ایک صورت تھی جو آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں

ایک وحشت تھی جو رکھتی ہے پریشاں اب تک

چند یادیں ہیں مری زیست کا حاصل باقرؔ

انہیں یادوں کے سہارے ہوں غزل خواں اب تک

(427) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sajjad Baqar Rizvi. is written by Sajjad Baqar Rizvi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sajjad Baqar Rizvi. Free Dowlonad  by Sajjad Baqar Rizvi in PDF.