فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی

فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی

کنج گل بھیج مری شاخ ہنر پر کوئی

رنگ کچھ اور نچوڑیں گے لہو سے اپنے

پھر تراشیں گے ہم اک اور نیا پیکر کوئی

بھیج کچھ تازہ کمک میرے مسافر کے لئے

پھر اترتا ہے مرے دشت میں لشکر کوئی

آستینوں میں ہواؤں نے چھپایا ہوا ہے

ہم نے دیکھا ہے چمکتا ہوا خنجر کوئی

کیا ہوا اب کہ سفر میں یہ مجھے یاد نہیں

مجھ سے رویا تھا بہت دیر لپٹ کر کوئی

زخم آنکھوں سے ٹپکتا ہے لہو کی صورت

یوں چلاتا ہے مرے سینے میں نشتر کوئی

خود تعاقب میں مری گھات لگائے کب سے

چھپ کے بیٹھا ہے مرے جسم کے اندر کوئی

ایک ساحل کا تماشائی ہے بس میرا وجود

میری مٹی میں ہے پوشیدہ سمندر کوئی

اپنی فکروں سے لہو کرتے ہیں لفظوں میں کشید

شاہدؔ ایسے نہیں ہوتا ہے سخنور کوئی

(559) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahid Kamal. is written by Shahid Kamal. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahid Kamal. Free Dowlonad  by Shahid Kamal in PDF.