کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا

کشتی رواں دواں تھی سمندر کھلا ہوا

آنکھوں میں بس گیا ہے وہ منظر کھلا ہوا

بستر تھا ایک جسم تھے دو خواہشیں ہزار

دونوں کے درمیان تھا خنجر کھلا ہوا

الجھا ہی جا رہا ہوں میں گلیوں کے جال میں

کب سے ہے انتظار میں اک گھر کھلا ہوا

اک حرف مدعا تھا سو وہ بھی دبی زبان

الزام دے رہا ہے ستم گر کھلا ہوا

صحرا نورد شہر کی سڑکوں پر آ گئے

چہرے پہ گرد آبلہ پا سر کھلا ہوا

(541) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahid Mahuli. is written by Shahid Mahuli. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahid Mahuli. Free Dowlonad  by Shahid Mahuli in PDF.