بے شمار آنکھیں

آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں

بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں

منظروں کے آئینے اپنے اپنے چہروں کو خود ہی دیکھ سکتے ہیں

خود ہی جان سکتے ہیں اپنی بے نوائی کو

وسعتوں کی چادر پر سلوٹیں بہت سی ہیں

اس خموش دنیا میں آہٹیں بہت سی ہیں

آتی جاتی لہروں کا ازدحام رہتا ہے

وقت ایک خنجر ہے

بے نیام رہتا ہے

یہ عجیب دنیا ہے جس میں کچھ نہیں ملتا

پھر بھی ایک لمحے میں بے شمار تاریخیں

یوں بدلتی رہتی ہیں

جیسے خشک پتوں کا ڈھیر اڑتا پھرتا ہے

بے کنار سمتوں میں

بے شمار سمتوں میں بے شمار آنکھیں ہیں

کچھ نہیں ہے تکنے کو اور ہزار آنکھیں ہیں

راستوں کے دھاگے سے ہر طرف لٹکتے ہیں

خاک کے جزیرے سے

ہر طرف بھٹکتے ہیں

پھر بھی آسمانوں پر رات کے اندھیرے میں

صبح کے سویرے ہیں

یہ عجب معمہ ہے

جس طرف بھی ہم دیکھیں

ٹوٹتے ہوئے لمحے بھاگتے ہوئے رستے جاگتے ہوئے منظر

آئنوں کے اندر بھی آئنوں کے باہر بھی

ایک شور برپا ہے

جس کو ہم نہیں سنتے

اور وہ ہم سے کہتا ہے

تم بھی میرے جیسے ہو

میں بھی مٹنے والا ہوں تم بھی مٹنے والے ہو

آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں

بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں

منظروں کے آئینے

رنگ رنگ آئینے کے جواب منظر ہیں

منظروں کے اندر بھی صد ہزار منظر ہیں

وہ بھی مٹنے والے ہیں

ہم بھی مٹنے والے ہیں

(560) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahzad Ahmad. is written by Shahzad Ahmad. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahzad Ahmad. Free Dowlonad  by Shahzad Ahmad in PDF.