اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے

اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے

یہ کس کا نام دست ستم گر پہ نقش ہے

بارش بھی آفتاب کا دامن نہ دھو سکی

کچھ گرد اب بھی دھوپ کے شہ پر پہ نقش ہے

تیرا ہی عکس رات کے آئینے میں اسیر

تیرا ہی خواب نیند کے بستر پہ نقش ہے

جس کو ترے لبوں کا تصور نہ دھو سکے

وہ تلخیٔ حیات بھی ساغر پہ نقش ہے

آنگن سے دستکوں کی صدا لوٹ آئے گی

ویرانیوں کا نام ہر اک گھر پہ نقش ہے

پانی کی یہ لکیر نہیں ہے جو مٹ سکے

شیشے کی داستان تو پتھر پہ نقش ہے

جکڑا ہوا ہے پچھلے جنم کے حصار میں

ماضی کا سانحہ دل اخترؔ پہ نقش ہے

(501) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sultan Akhtar. is written by Sultan Akhtar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sultan Akhtar. Free Dowlonad  by Sultan Akhtar in PDF.