زوال کی آخری چیخ

چھٹی بار جب میں نے دروازہ کھولا

تو اک چیخ میرے بدن کے مساموں سے چمٹی

بدن کے اندھیروں میں اتری

مرا جسم اس چیخ کے تند پنجوں سے جھلسی ہوئی

بے کراں چیخ تھا

میں لرزتا ہوا کہنہ گنبد سے نکلا

اور چیخ میرے بدن سے سیاہ گھاس کی طرح نکلی

بدن کے کروڑوں مساموں کے منہ پر

سیاہ چیخ کا سرخ جنگل اگا تھا

کوئی چیخ اب بھی ابھرتی تھی جس سے

گنبد کے دیوار و در کانپتے تھے

کوئی شے دکھائی نہیں دے رہی تھی

فقط اک دھواں تھا

جو گنبد کے سوراخ سے اپنے پاؤں نکالے

ہواؤں کے بے داغ سینوں سے چمٹا ہوا تھا

ساتویں بار پھر میں نے دروازہ کھولا

تو میرے لہو کی ہر اک بوند میں

ساتویں بار پھر سرسراتی ہوئی چیخ گزری

میں نے دیکھا کہ گنبد میں میلی زمیں پر

نزع کی حالت میں اک لاش ہے

جس نے اب ساتویں بار میرے بدن میں

ساتویں چیخ کا گرم لاوا اتارا

یہ زوال کی آخری سرد چیخوں کی اک چیخ تھی

(556) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tabassum Kashmiri. is written by Tabassum Kashmiri. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tabassum Kashmiri. Free Dowlonad  by Tabassum Kashmiri in PDF.