چار سال بعد

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

چبوترے پہ گرد کی دبیز تہہ جمی ہوئی

گزرتی ساعتوں کے غم دروں میں چیختے ہوئے

اداس کھڑکیوں کے رنگ دکھ میں بھیگتے ہوئے

یہ خواب بستروں کی چادروں میں سوکھتے ہوئے

وہ پھول ایک بار جس طرح یہاں سجائے تھے

اسی طرح سے ان کے زرد نقش کانپتے ہوئے

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

ہوا نہ جانے کتنی بار در پہ آ کے جا چکی

نہ جانے کتنی بار کھڑکیوں پہ دستکیں ہوئیں

نہ جانے کتنے قہقہوں کو لوگ بھول بھی چکے

چبوترے پہ گرد کی دبیز تہہ نے کہہ دیا

کہ مدتوں سے یاں کسی نے داستاں نہیں لکھی

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

حویلیوں کا طمطراق ٹوٹ کر بکھر چکا

چمن سے اب بہار کا ہر اک نشہ اتر چکا

انانیت شکست خوردہ خامشی میں ڈھل چکی

اور آج گنبدوں میں اپنی گونج سن رہی ہوں میں

کہ مدتوں سے گھر میں مسکراہٹیں نہ جل سکیں

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

مگر وہ نام تو کہیں کھدے ہوئے ہیں پیڑ پر

میں روز و شب کی آندھیوں کو اپنے گھر میں ہی رہوں

میں شام کو اداسیوں میں اک درخت کے تلے

پرانے نام چپکے چپکے یاد کر کے رو سکوں

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

مگر وہ پیڑ آندھیوں میں جانے کب اکھڑ گیا

نہ جانے کون لوگ اس کو کاٹ کر چلے گئے

مجھے نہیں خبر کہ اس کی پتیاں کہاں گئیں

تنے کی لکڑیاں بھی کس مشین میں بدل گئیں

وہ نام پانیوں کے راستے کہاں چلے گئے

پھر آج چار سال بعد اسی جگہ کھڑی ہوں میں

میں لوٹ جاؤں گی چبوترے کی گرد پونچھ کر

گزرتی ساعتوں کے غم دروں میں چیخ جائیں گے

اداس کھڑکیوں کے رنگ دکھ میں بھیگ جائیں گے

یہ خواب بستروں کی چادروں میں سوکھ جائیں گے

میں تازہ پھول جس طرح سے اب سجا کے جاؤں گی

وہی نقوش چار سال بعد کانپ جائیں گے

میں غربتوں کی قبر میں خموش لوٹ جاؤں گی

یہ عمر بے کنار راستوں میں بیت جائے گی

میں اب اجاڑ بستیوں میں لوٹ کے نہ آؤں گی

(691) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tanveer Anjum. is written by Tanveer Anjum. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tanveer Anjum. Free Dowlonad  by Tanveer Anjum in PDF.