ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا

قلم اداس ہے لفظوں میں حشر برپا ہے

ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا

جنون شوق جنون سفر بھی ختم ہوا

فرات جاں

تری موجوں میں اب روانی نہیں

کوئی فسانہ نہیں اب کوئی کہانی نہیں

سمٹ گئے ہیں کنارے وہ بیکرانی نہیں

تو کیا یہ نبض کا چلنا ہی زندگانی ہے

نہیں نہیں یہ کوئی زیست کی نشانی نہیں

کہ سانس لینا فقط کوئی زندگانی نہیں

کچھ اور رنگ میں آئی ہے یہ خزاں اب کے

ہے سمٹی سمٹی سی خود میں ہی غیرت ناہید

میان اہل طریقت بھی بے ردا ہے غزل

ہجوم اہل زباں اور بے نوا ہے غزل

سفر یہ کیسے کرے خار زار رستوں پر

تھکن سوار ہے اس پر برہنہ پا ہے غزل

تمہارا ساتھ جو چھوٹا تو اب پریشاں ہے

کہ اس تغافل بے جا پہ سخت حیراں ہے

یہ کس مقام پہ تم نے اکیلا چھوڑ دیا

تمہیں خبر ہے کہ تم سے بہت خفا ہے غزل

یہ بے مکانی

یہ تنہائی اور یہ در بہ دری

ستا رہا ہے بہت اب خیال ہمسفری

صلیب و دار و رسن سے گزر رہی ہے غزل

چلے بھی آؤ کہاں ہو کہ مر رہی ہے غزل

سیہ لباس میں نوحے اداس بیٹھے ہیں

سروں کو تھامے قصیدے اداس بیٹھے ہیں

ہے مرثیے کی نگاہوں میں ابر ٹھہرا ہوا

بدن دریدہ لطیفے اداس بیٹھے ہیں

ابھر رہی ہے یہ کیسی صدائے واویلا

سرہانے دیکھو رباعی کا بین ہوتا ہے

وہ دیکھو

نظم گریبان چاک کرتے ہوئے

دہائی دیتی ہے مقتل کے استعاروں کی

علامتوں کی کنایوں کی اور اشاروں کی

بہت ملول ہیں شہر سخن کی تحریریں

شب الم کے ہیں قصے جنوں کی تفسیریں

ورق ورق ہے پریشاں غبار خاطر کا

ہوا ہے نثر کو احساس پھر یتیمی کا

ہوائے شہر ستم کس ادا سے گزری ہے

دہن خموش ہیں

چپ چپ سے ہیں سخن کے چراغ

بجھی بجھی سی ہے قندیل خانقاہ ادب

دھواں دھواں ہیں

خطابت کے فکر و فن کے چراغ

ہے آسمان ادب پہ وہ دھند چھائی ہوئی

دکھائی دیتا نہیں اب کوئی ستارۂ نور

کلام کا وہ قرینہ

وہ گفتگو کا شعور

کہاں سے اب کوئی لائے گا ثانیٔ منظور

عجیب وقت پڑا ہے فن نظامت پر

کہ دم بخود سے کھڑے ہیں اب انورؔ و منظورؔ

وقار کیسے عطا ہو شکستہ لہجوں کو

رفو کرے کوئی کیسے دریدہ جملوں کو

ہے مسکرانا ضروری وقار غم کے لئے

تراشے کون زباں حرمت قلم کے لئے

تمہارے جانے سے ویران ہو گئی محفل

اجڑ گیا ہے یہ دیکھو جہان شہر ادب

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اب کہاں جائیں

بھٹکتے پھرتے ہیں اب ساکنان شہر ادب

یہ میکدے کی اداسی

یہ جام الٹے ہوئے

کہ جیسے روئے ہوں شب بھر یہ ساغر و مینا

کئی دنوں سے ہنسی ہی نہیں ہے کالج گرل

تمہارے ہجر نے پتھر بنا دیا ہے اسے

بہت اداس بڑی بے قرار چپ چپ سی

کہ حزن و یاس کا منظر بنا دیا ہے اسے

وہ دیکھو میز پہ جتنی کتابیں رکھی ہیں

تمہاری گرد رفاقت ہے سب کے چہرے پر

پکارتی ہیں تمہیں یہ ادھوری تحریریں

بکھرتے ٹوٹتے خوابوں کی تشنہ تعبیریں

یہ اجڑا اجڑا دبستان ڈھونڈھتا ہے تمہیں

چلے بھی آؤ کہ امکان ڈھونڈھتا ہے تمہیں

جو ہو سکے تو چلے آؤ تم ملک زادہ

مگر یہ خواہش بے جا

اسے خبر ہی نہیں

کہ جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے

مہکتے رہتے ہیں گلدان ان کی یادوں کے

سلگتے رہتے ہیں لوبان ان کی یادوں کے

(869) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tariq Qamar. is written by Tariq Qamar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tariq Qamar. Free Dowlonad  by Tariq Qamar in PDF.