پچاسی سال نیچے گر گئے

ضعیفی کی شکن آلود چادر سے بدن ڈھانپے

وہ اپنی نوجواں پوتی کے ساتھ

آہستہ آہستہ

سڑک کے ایک جانب چل رہا تھا

گماں ہوتا تھا

جیسے دھوپ کے کاندھے پہ

چھاؤں ہاتھ رکھے چل رہی ہے

چیختی ایڑیوں پر کڑکڑاتی ہڈیاں گاڑے ہوئے

وہ جسم کا ملبہ اٹھائے جا رہا تھا

اگرچہ پاؤں جنبش کر رہے تھے

مگر بوڑھی کمر اتنی خمیدہ تھی

کہ ٹانگیں جھولتی بیساکھیاں معلوم ہوتی تھیں

اچانک ایک جیپ آ کر رکی

لڑکے نے شیشے کو اتارا اور دیکھا

پھول پتلی شاخ سے لٹکا ہوا تھا

خزانہ غار میں تھا

اور دہانے پر فقط مکڑی کا جالا تھا

ہرن پنجرے میں تھا

اور اس کے دروازے پر زنگ آلود تالا تھا

وہ بھوکے شیر کی مانند لپکا

اور اس لڑکی کی

نیلی کانچ میں لپٹی کلائی پر شکنجہ کس دیا

بوڑھے نے کندھا چھوڑ کر اپنی کمر پر ہاتھ رکھے

اپنی آنکھوں کو نظر دی

اور اپنے پاؤں پر ٹانگیں لگا لیں

بدن سالوں کی دیمک کی

مسلسل کار فرمائی سے ڈھل جاتے ہیں

لیکن غیرتیں بوڑھی نہیں ہوتیں

نہ جانے وہ ہوا کا تیز جھونکا تھا

یا بوڑھے پاؤں کے ہلکے توازن کی ڈھلائی تھی

پھر لڑکے کے ہاتھوں کی درازی تھی

کہ وہ بوڑھا

بڑی ہی بے بسی کے ساتھ نیچے گر گیا

اور اس کے ڈھلکے جسم نے

کالی سڑک کے ساتھ ٹکراتے ہی اک آواز دی

پچاسی سال نیچے گر گئے تھے

کبھی جب زلزلہ آئے

تو اس کی جھرجھری سی مختلف عمروں کے گھر

گرتے ہیں اور آواز دیتے ہیں

نئے سیمنٹ میں لپٹی نم عمارت گر پڑے

تو گڑگڑاہٹ پھیل جاتی ہے

پلازا منہدم ہو جائے تو اس کے دھماکے میں

مسلسل چرچراہٹ

ساتھ دیتی ہے

مگر کوئی حویلی گر پڑے

جس کے در و دیوار پر

کائی اندھیرا گوندھ کے اپنی ہری پوروں سے ملتی ہے

تو اس میں صدیاں بولتی ہیں

اور گزری ساعتوں کی کانپتی خاموشیاں آواز دیتی ہیں

جب اس نے ہاتھ سے دھرتی دبا کے

کہنیوں کی آزمائش کی

کہ شاید اس طرح وہ اٹھ سکے

تو صرف اپنے سر کو گردن کا سہارا دے سکا

بالوں کی لمبی ایک لٹ

ماتھے پہ متوازی کھدی شکنوں میں

چھپ کر کانپتی تھی

اور کچھ بالوں کو تازہ چوٹ رنگیں کر گئی تھی

تحیر بے بسی کے ساتھ

آنکھوں کی نمی میں جذب ہو کر

آہنی چشمے کے

شیشوں میں لرزتا تھا

کھلے ہونٹوں میں دانتوں کے شگافوں کو

زباں پیوند کرتی تھی

دہن کے نم کنارے

کان کے بن

سرخ رخساروں کے بل

چاہ ذقن کے منہ سے لٹکے

تہ بہ تہ گردن کے سلوٹ

اور ان میں ڈولتے پانی کے قطرے

سب کے سب ہلتے تھے

بس رفتار میں اک دوسرے سے مختلف تھے

حویلی گر گئی تھی

عنابی گرد نے دیوار و در گہنا دئیے تھے

فصیلیں سرمئی تالاب کے اندر گری تھیں

حرم دروازہ پائیں باغ میں اوندھا پڑا تھا

اور اس کی کیل میں الجھا ہوا

باریک پردہ ہل رہا تھا

(810) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Waheed Ahmad. is written by Waheed Ahmad. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Waheed Ahmad. Free Dowlonad  by Waheed Ahmad in PDF.