پرومیتھیس

اگر میں کہتا ہوں جینا ہے قید تنہائی

تو زندگانی کی قیمت پہ حرف کیوں آئے

اگر نہ آیا مجھے سازگار وصل حبیب

تو اعتماد محبت پہ حرف کیوں آئے

اگر ملے مجھے ورثے میں کچھ شکستہ کھنڈر

تو کائنات کی وسعت پہ حرف کیوں آئے

اگر دکھائی دئے مجھ کو آدمی آسیب

تو عصر نو کی بصیرت پہ حرف کیوں آئے

اگر نہ راہ یقیں پا سکی مری تشکیک

تو فکر و فن کی شرافت پہ حرف کیوں آئے

اگر خزاں ہی ملی مجھ کو آنکھ کھلنے پر

تو فصل گل کی امانت پہ حرف کیوں آئے

اگر مرے غم بے نام ہمیں ملی وحشت

تو بزم جشن مسرت پہ حرف کیوں آئے

میں اپنے عہد کا ہوں نوحہ خواں نہ دیجے داد

قصیدہ خواں کی روایت پہ حرف کیوں آئے

اگر ہنر ہے مرا جنس کم عیار تو ہو

ضمیر و دل کی تجارت پہ حرف کیوں آئے

میں اپنے خوابوں کا بھٹکا ہوا مسافر ہوں

اگر مجھے نہ ملی منزل نجات تو کیا

میں اپنی روح کی تنہائیوں کا شعلہ ہوں

ہوائے دہر میں حاصل نہیں ثبات تو کیا

میں اپنی طرفگی طبع کا تو پی لوں زہر

جو دسترس میں نہیں چشمۂ حیات تو کیا

میں اپنی ذات کی خلوت کا حیرتی ہی سہی

جو مجھ پہ کھل نہ سکا راز کائنات تو کیا

میں اپنے خوں کے چراغوں کو روشنی دے دوں

سحر نصیب نہ ہو پائے میری رات تو کیا

میں آپ سے نہ کہوں گا کہ ہے زیاں جاں کا

خیال شیشۂ دل سنگ آزما نہ کرے

میں آپ سے نہیں چاہوں گا داد جاں بازی

دعا ہے آپ کو غم درد آشنا نہ کرے

میں آپ سے نہیں مانگوں گا خوں بہائے وفا

کوئی تو ترک رہ و رسم عاشقانہ کرے

میں آپ کو نہ دکھاؤں گا اپنے زخمی خواب

خلل ہو آپ کے آرام میں خدا نہ کرے

مگر زمین پرومیتھیس کو کیوں روکے

جو وہ جہاں کے خداؤں سے جنگ کرتا ہے

اسے نہ موت کے آسیب پاس آنے دیں

جو آسمانوں سے لے کر حیات اترتا ہے

ہے ڈر پگھلنے کا دیکھیں ادھر نہ برف کے بت

جو کوئی شعلۂ عریاں یہ ہاتھ دھرتا ہے

عذاب اس پہ کریں کم نہ قہر کے دیوتا

جو اپنی آگ میں جل کر بھی رقص کرتا ہے

اسے نہ مانے کبھی بے حسی حیات پرست

ہر ایک سانس پہ جو زندہ ہو کے مرتا ہے

کریں نہ آپ مداوائے سوز آتش غم

یہ ظلم مجھ پہ تو ہر روز و شب گزرتا ہے

سلامت آپ کا ایمان میں تو ہوں کافر

ہر ایک وضع سے اپنی حیات کرتا ہے

(872) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Waheed Akhtar. is written by Waheed Akhtar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Waheed Akhtar. Free Dowlonad  by Waheed Akhtar in PDF.