مٹی سے ایک مکالمہ

ماں کہتی ہے

جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے

سب آباد گھروں کی مائیں

پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں

اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے

ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ

اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں

کتنی عمریں چور رہی تھی

اک اک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے

سب کچھ یاد ہے آج

کہ میں اک عمر نگل کر بیٹھا ہوں

عمر کی آخری سرحد کی بنجر مٹی

جب سے ماں کے ہونٹوں سے گرتے لفظوں میں کانپتی ہے

میری سانس تڑپ اٹھتی ہے

اس کے مٹتے نقش مرے اندر

کہرام سی اک تصویر بنے ہیں

زندگیوں کے کھوکھلے بن پر

آنسوؤں لپٹی ہنسی مرے ہونٹوں پہ لرزتی رہتی ہے

اچھی ماں

عمر کے چلتے سائے کی تذلیل میں

تیرے لہو کے رس کی لذت

تیرے غرور کی ساری شکلیں

ان رستوں میں مٹی مٹی کر آیا ہوں

پتھریلی سڑکوں پہ اپنے ہی قدموں سے

خود کو روند کے گزرا ہوں

میرے لہو کے شور میں تیری

کوئی بھی پہچان نہیں ہے

تیری اجلی شبیہ کچھ ایسے دھندلائی ہے

تجھ سے وصل کی آنکھ سے

بینائی زائل ہے

میں تیرے دردوں کا مارا

تیری ہی صورت میں بھی

اک جیون ہارا

(743) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

MiTTi Se Ek Mukalima In Urdu By Famous Poet Abrar Ahmad. MiTTi Se Ek Mukalima is written by Abrar Ahmad. Enjoy reading MiTTi Se Ek Mukalima Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Abrar Ahmad. Free Dowlonad MiTTi Se Ek Mukalima by Abrar Ahmad in PDF.