اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا

اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا

ساحل کی تمنا تھی نظر ہی نہیں آیا

روشن ہیں جہاں شمع محبت کی قطاریں

وہ کنج کم آثار نظر ہی نہیں آیا

میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا

کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا

وہ گنبد بے در تھا کہ دیوار انا تھی

منظر کوئی باہر کا نظر ہی نہیں آیا

اک ایسا سفر بھی مجھے درپیش تھا لوگو

کچھ کام جہاں زاد سفر ہی نہیں آیا

بیٹھے رہے پلکوں کو بچھائے سر راہے

وہ جان جہاں گشت ادھر ہی نہیں آیا

اک پل کو جہاں بیٹھا ہوں تھک کر کبھی اخترؔ

رستے میں کوئی ایسا شجر ہی نہیں آیا

(878) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Umr BhaTakte Rahe Ghar Hi Nahin Aaya In Urdu By Famous Poet Akhtar Shahjahanpuri. Ek Umr BhaTakte Rahe Ghar Hi Nahin Aaya is written by Akhtar Shahjahanpuri. Enjoy reading Ek Umr BhaTakte Rahe Ghar Hi Nahin Aaya Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Akhtar Shahjahanpuri. Free Dowlonad Ek Umr BhaTakte Rahe Ghar Hi Nahin Aaya by Akhtar Shahjahanpuri in PDF.