سفیرِ لیلیٰ-۳

سفیر لیلیٰ یہ کیا ہوا ہے

شبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں

دلوں کے دھاگے اکھڑ گئے ہیں

شفیق آنسو نہیں بچے ہیں غموں کے لہجے بدل گئے ہیں

تمہی بتاؤ کہ اس کھنڈر میں جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں

جہاں سمندر ہوں تیرگی کے

سیاہ جالوں کے بادباں ہوں

جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں باتیں کرتی ہوں مردہ روحیں

سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ جہاں اکیلا ہو داستاں گو

وہ داستاں گو جسے کہانی کے سب زمانوں پہ دسترس ہو

شب رفاقت میں طول قصہ چراغ جلنے تلک سنائے

جسے زبان ہنر کا سودا ہو زندگی کو سوال سمجھے

وہی اکیلا ہو اور خموشی ہزار صدیوں کی سانس روکے

وہ چپ لگی ہو کہ موت بام فلک پہ بیٹھی زمیں کے سائے سے کانپتی ہو

سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ وہ ایسے دوزخ سے کیسے نپٹے

دیار لیلیٰ سے آئے نامے کی نو عبارت کو کیسے پڑھ لے

پرانے لفظوں کے استعاروں میں گم محبت کو کیونکے سمجھے

سفیر لیلیٰ ابھی ملامت کا وقت آئے گا دیکھ لینا

اگر مصر ہو تو آؤ دیکھو

یہاں پہ بیٹھو یہ نامے رکھ دو

یہیں پہ رکھ دو انہی سلوں پر

کہ اس جگہ پر ہماری قربت کے دن ملے تھے

وہ دن یہیں پر جدا ہوئے تھے انہی سلوں پر

اور اب ذرا تم نظر اٹھاؤ مجھے بتاؤ تمہارا ناقہ کہاں گیا ہے

بلند ٹخنوں سے زرد ریتی پہ چلنے والا صبیح ناقہ

وہ سرخ ناقہ سوار ہو کر تم آئے جس پر بری سرا میں

وہی، کہ جس کی مہار باندھی تھی تم نے بوسیدہ استخواں سے

وہ اسپ تازی کے استخواں تھے

مجھے بتاؤ سفیر لیلیٰ کدھر گیا وہ

ادھر تو دیکھو وہ ہڈیوں کا ہجوم دیکھو

وہی تمہارا عزیز ساتھی سفر کا مونس

پہ اب نہیں ہے

اور اب اٹھاؤ سلوں سے نامے

پڑھو عبارت جو پڑھ سکو تو

کیا ڈر گئے ہو کہ سطح کاغذ پہ جز سیاہی کے کچھ نہیں ہے

خجل ہو اس پر کہ کیوں عبارت غبار ہو کر نظر سے بھاگی

سفیر لیلیٰ یہ سب کرشمے اسی کھنڈر نے مری جبیں پر لکھے ہوئے ہیں

یہی عجائب ہیں جن کے صدقے یہاں پرندے نہ دیکھ پاؤ گے

اور صدیوں تلک نہ اترے گی یاں سواری

نہ چوب خیمہ گڑے گی یاں پر

سفیر لیلیٰ یہ میرے دن ہیں

سفیر لیلیٰ یہ میری راتیں

اور اب بتاؤ کہ اس اذیت میں کس محبت کے خواب دیکھوں

میں کن خداؤں سے نور مانگوں

مگر یہ سب کچھ پرانے قصے پرائی بستی کے مردہ قضیے

تمہیں فسانوں سے کیا لگاؤ

تمہیں تو مطلب ہے اپنے ناقہ سے اور نامے کی اس عبارت سے

سطح کاغذ سے جو اڑی ہے

سفیر لیلیٰ تمہارا ناقہ

میں اس کے مرنے پر غم زدہ ہوں

تمہارے رنج و الم سے واقف بڑے خساروں کو دیکھتا ہوں

سو آؤ اس کی تلافی کر دوں یہ میرے شانے ہیں بیٹھ جاؤ

تمہیں خرابے کی کار گہہ سے نکال آؤں

دیار لیلیٰ کو جانے والی حبیب راہوں پہ چھوڑ آؤں

(1064) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Safir-e-laila-3 In Urdu By Famous Poet Ali Akbar Natiq. Safir-e-laila-3 is written by Ali Akbar Natiq. Enjoy reading Safir-e-laila-3 Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ali Akbar Natiq. Free Dowlonad Safir-e-laila-3 by Ali Akbar Natiq in PDF.