کھلا ہے زیست کا اک خوش نما ورق پھر سے

کھلا ہے زیست کا اک خوش نما ورق پھر سے

ہوائے شوق نے کی ہے یہاں پہ دق پھر سے

پکارتا ہے مجھے کون میرے ماضی سے

کہ آج رخ پہ مرے چھا گئی شفق پھر سے

خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں

کسی نے کر دیا کیا آج ذکر حق پھر سے

کسی سے روٹھ گئے یا کسی کا دل توڑا

جبیں پہ آ گیا کیوں آپ کی عرق پھر سے

میان دل کوئی لیتی ہے ٹیس انگڑائی

وہی ہے رنج وہی غم وہی قلق پھر سے

نہ نکلو چاندنی راتوں میں کتنی بار کہا

ہوا ہے چاند کے چہرہ کا رنگ فق پھر سے

بس ایک تجربہ کافی ہے زندگی کے لئے

پڑھا نہ جائے گا ہم سے وہی سبق پھر سے

یہی نظام زمانہ یہی تغیر ہے

جو سہل ہے وہی ہو جائے گا ادق پھر سے

کہیں قریب ہی بادل برستے ہیں آلوکؔ

ہوائیں لائی ہیں خنکی کی کچھ رمق پھر سے

(728) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Khula Hai Zist Ka Ek KHushnuma Waraq Phir Se In Urdu By Famous Poet Alok Yadav. Khula Hai Zist Ka Ek KHushnuma Waraq Phir Se is written by Alok Yadav. Enjoy reading Khula Hai Zist Ka Ek KHushnuma Waraq Phir Se Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Alok Yadav. Free Dowlonad Khula Hai Zist Ka Ek KHushnuma Waraq Phir Se by Alok Yadav in PDF.