ایک کمرۂ امتحان میں

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو

بے خیال ہاتھوں سے

ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں

یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں

سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں

ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں

دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں

شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے

بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے

مجھ کو دیکھتے ہیں تو

یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں

دائرے بناتے ہیں

جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں

اس طرح کے منظر میں

امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا

نقل کرنے والوں کے

نت نئے طریقوں سے

آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا

کس طرف سے جانے یہ

آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے

سیکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے

وقت کی عدالت میں

زندگی کی صورت میں

یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے

کس نے یہ بنایا ہے

کس لئے بنایا ہے

کچھ سمجھ میں آیا ہے

زندگی کے پرچے کے

سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو

بے خیال ہاتھوں سے

ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں

کوئی دیکھتا ہے تو

دائرے بناتا ہوں

حاشیے لگاتا ہوں

یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں

(8351) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Kamra-e-imtihan Mein In Urdu By Famous Poet Amjad Islam Amjad. Ek Kamra-e-imtihan Mein is written by Amjad Islam Amjad. Enjoy reading Ek Kamra-e-imtihan Mein Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Amjad Islam Amjad. Free Dowlonad Ek Kamra-e-imtihan Mein by Amjad Islam Amjad in PDF.