لاکھ رہے شہروں میں پھر بھی اندر سے دیہاتی تھے

لاکھ رہے شہروں میں پھر بھی اندر سے دیہاتی تھے

دل کے اچھے لوگ تھے لیکن تھوڑے سے جذباتی تھے

اب بھی اکثر خواب میں ان کے دھندلے چہرے آتے ہیں

میری گڑیا کی شادی میں جو ننھے باراتی تھے

اپنے گرد لکیریں کھینچیں اور پھر ان میں قید ہوئے

اس دنیا میں جتنے کھیل تھے سارے ہی طبقاتی تھے

جھونپڑیوں میں رہنے والے ان کی فطرت جان گئے

کبھی کبھی چڑھ آنے والے نالے جو برساتی تھے

جس بادل نے سکھ برسایا جس چھاؤں میں پریت ملی

آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ سب موسم لمحاتی تھے

جن کو بڑا مانا تھا میں نے فرحتؔ وہ کیوں بھول گئے

کچھ گوشے میرے جیون کے بالکل میرے ذاتی تھے

(945) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Lakh Rahe Shahron Mein Phir Bhi Andar Se Dehati The In Urdu By Famous Poet Farhat Zahid. Lakh Rahe Shahron Mein Phir Bhi Andar Se Dehati The is written by Farhat Zahid. Enjoy reading Lakh Rahe Shahron Mein Phir Bhi Andar Se Dehati The Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Farhat Zahid. Free Dowlonad Lakh Rahe Shahron Mein Phir Bhi Andar Se Dehati The by Farhat Zahid in PDF.