رقاصہ

اٹھی ہے مغرب سے گھٹا

پینے کا موسم آ گیا

ہے رقص میں اک مہ لقا

نازک ادا ناز آفریں

ہاں ناچتی جا گائے جا

نظروں سے دل برمائے جا

تڑپائے جا تڑپائے جا

او دشمن دنیا و دیں!

تیرا تھرکنا خوب ہے

تیری ادائیں دل نشیں

لیکن ٹھہر تو کون ہے

او نیم عریاں نازنیں

کیا مشرقی عورت ہے تو

ہرگز نہیں ہرگز نہیں

تیری ہنسی بے باک ہے

تیری نظر چالاک ہے

اف کس قدر دل سوز ہے

تقریر بازاری تری

کتنی ہوس آموز ہے

یہ سادہ پرکاری تری

شرم اور عزت والیاں

ہوتی ہیں عفت والیاں

وہ حسن کی شہزادیاں

پردے کی ہیں آبادیاں

چشم فلک نے آج تک

دیکھی نہیں ان کی جھلک

سرمایۂ شرم و حیا

زیور ہے ان کے حسن کا

شوہر کے دکھ سہتی ہیں وہ

منہ سے نہیں کہتی ہیں وہ

کب سامنے آتی ہیں وہ

غیرت سے کٹ جاتی ہیں وہ

اعزاز ملت ان سے ہے

نام شرافت ان سے ہے

ایمان پر قائم ہیں وہ

پاکیزہ و صائم ہیں وہ

تجھ میں نہیں شرم و حیا

تجھ میں نہیں مہر و وفا

سچ سچ بتا تو کون ہے

او بے حیا تو کون ہے

احساس عزت کیوں نہیں

شرم اور غیرت کیوں نہیں

یہ پر فسوں غمزے ترے

نا محرموں کے سامنے

ہٹ سامنے سے دور ہو

مردود ہو مقہور ہو

تقدیر کی ہیٹی ہے تو

شیطان کی بیٹی ہے تو

جس قوم کی عورت ہے تو

اس قوم پر لعنت ہے تو

لیکن ٹھہر جانا ذرا

تیری نہیں کوئی خطا

مردوں میں غیرت ہی نہیں

قومی حمیت ہی نہیں

وہ ملت بیضا کہ تھی

سارے جہاں کی روشنی

جمعیت اسلامیاں

شاہنشہ ہندوستاں

اب اس میں دم کچھ بھی نہیں

ہم کیا ہیں ہم کچھ بھی نہیں

ملی سیاست اٹھ گئی

بازو کی طاقت اٹھ گئی

شان حجازی اب کہاں

وہ ترکتازی اب کہاں

اب غزنوی ہمت گئی

اب بابری شوکت گئی

ایمان عالمگیر کا

مسلم کے دل سے اٹھ گیا

قوم اب جفا پیشہ ہوئی

عزت گدا پیشہ ہوئی

اب رنگ ہی کچھ اور ہے

بے غیرتی کا دور ہے

یہ قوم اب مٹنے کو ہے

یہ نرد اب پٹنے کو ہے

افسوس یہ ہندوستاں!

یہ گلشن جنت نشاں!

ایمان داروں کا وطن

طاعت گزاروں کا وطن

رہ جائے گا ویرانہ پھر

بن جائے گا بت خانہ پھر

لیکن مجھے کیا خبط ہے

تقریر کیوں بے ربط ہے

ایسا بہک جاتا ہوں میں

منہ آئی بک جاتا ہوں میں

اتنا شرابی ہو گیا

عقل و خرد کو کھو گیا

مجھ کو زمانے سے غرض

مٹنے مٹانے سے غرض

ہندوستاں سے کام کیا

اندیشۂ انجام کیا

جینے دو جینے دو مجھے

پینے دو پینے دو مجھے

جب حشر کا دن آئے گا

اس وقت دیکھا جائے گا

ہاں ناچتی جا گائے جا

نظروں سے دل برمائے جا

تڑپائے جا تڑپائے جا

او دشمن دنیا و دیں

(1543) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Raqqasa In Urdu By Famous Poet Hafeez Jalandhari. Raqqasa is written by Hafeez Jalandhari. Enjoy reading Raqqasa Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Hafeez Jalandhari. Free Dowlonad Raqqasa by Hafeez Jalandhari in PDF.