کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں

یہ کیا بتائیں کہ ہم کیا گنوا کے آئے ہیں

بس اک ضمیر بہ مشکل بچا کے لائے ہیں

اب آ گئے ہیں تو پیاسے نہ جائیں گے ساقی

کچھ آج سوچ کے ہم میکدے میں آئے ہیں

کوئی ہواؤں سے کہہ دو ادھر کا رخ نہ کرے

چراغ ہم نے سمجھ بوجھ کر جلائے ہیں

جہاں کہیں بھی صدا دی یہی جواب ملا

یہ کون لوگ ہیں پوچھو کہاں سے آئے ہیں

چمن میں دیکھیے اب کے ہوا کدھر کی چلے

خزاں نصیبوں نے پھر آشیاں بنائے ہیں

سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ

ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں

انہیں پرائے چراغوں سے کیا غرض اقبالؔ

جو اپنے گھر کے دیئے خود بجھا کے آئے ہیں

(1326) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Kuchh Aise ZaKHm Bhi Dar-parda Humne Khae Hain In Urdu By Famous Poet Iqbal Azeem. Kuchh Aise ZaKHm Bhi Dar-parda Humne Khae Hain is written by Iqbal Azeem. Enjoy reading Kuchh Aise ZaKHm Bhi Dar-parda Humne Khae Hain Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Iqbal Azeem. Free Dowlonad Kuchh Aise ZaKHm Bhi Dar-parda Humne Khae Hain by Iqbal Azeem in PDF.