در حال لشکر

مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش

آئے لشکر میں ہم براے تلاش

آن کر دیکھی یاں کی طرفہ معاش

ہے لب ناں پہ سو جگہ پرخاش

نے دم آب ہے نہ چمچۂ آش

مرنے کے مرتبے میں ہیں احباب

جو شناسا ملا سو بے اسباب

تنگ دستی سے سب بہ حال خراب

جس کے ہے پال تو نہیں ہے طناب

جس کے ہے فرش تو نہیں فراش

زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال

کنجڑے جھینکیں ہیں روتے ہیں بقال

پوچھو مت کچھ سپاہیوں کا حال

ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال

بادشاہ و وزیر سب قلاش

جبے والے جو تھے ہوئے ہیں حقیر

تن سے ظاہر رگیں ہیں جیسے لکیر

ہیں معذب غرض صغیر و کبیر

مکھیاں سے گریں ہزاروں فقیر

دیکھیں ٹکڑا اگر برابر قاش

شور مطلق نہیں کسو سر میں

زور باقی نہ اسپ و اشتر میں

بھوکھ کا ذکر اقل و اکثر میں

خانہ جنگی سے امن لشکر میں

نہ کوئی رند نے کوئی اوباش

لال خیمہ جو ہے سپہراساس

پالیں ہیں رنڈیوں کی اس کے پاس

ہے زنا و شراب بے وسواس

رعب کر لیجیے یہیں سے قیاس

قصہ کوتہ رئیس ہے عیاش

جتنے ہیں یھاں امیر بے دستور

پھر بحسن سلوک سب مشہور

پہنچنا ان تلک نہایت دور

بات کہنے کا واں کسے مقدور

حاصل ان سے نہ دل کو غیر خراش

چار لچے ہیں مستعدکار

دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار

ہیں وضیع و شریف سارے خوار

لوٹ سے کچھ ہے گرمی بازار

سو بھی قند سیاہ ہے یا ماش

در پہ عمدوں کے روز و شب شر و شور

حرف یکسر فریب و رشوت خور

بے لیے دیکھیں نے کسو کی اور

مردہ شو بردہ سب کفن کے چور

رحمت اللہ بر اولیں نباش

یک بیک گر کسو کی موت آئی

اس کے مردے کی پھر ہے رسوائی

کیونکہ پہنچی ہے جن کو امرائی

سب وہ اولاد حاتم طائی

کون دے کر کفن اٹھاوے لاش

بالضرورت گیا میں جس کے گھر

آدمی کی نہ جنس تھا وہ خر

بات کرنے لگا تو نیچی نظر

بے مروت سفیہ بدمنظر

قابل صدہزار شاش و تراش

ہے جنھیں کچھ بھی رویت دربار

سو فریبندہ مکری و غدار

کاذب و مفت بر ہیں دل آزار

ڈول ان کا ہے یہ کہ کریے خوار

کام ان کا ہے یہ خراش و تراش

جن پہ ٹھہرے ہے آکے سرداری

ان سے ہم کو تھی چشم دلداری

معرفت ان کے بعد صدخواری

فرد دستخط ہوئی جو اک باری

جیسے کھینچے لکیریں کوئی نقاش

اس لکھے کا نہیں ٹھکانا کچھ

وہم میں بھی نہیں ہے پانا کچھ

جس پہ دستخط نہ آنے جانا کچھ

بن نہ آیا مجھے بہانہ کچھ

غیر اس کے کہ لے اٹھوں بشاش

واں سے اٹھ کر میں پال میں آیا

سخت تغئیر حال میں آیا

بارہا یہ خیال میں آیا

کہ زیاں شہ کے مال میں آیا

واسطے میرے سو مرا یہ قماش

بخش دوں جامہ تک جو ہو قدرت

آٹھوں آنے ہیں خرچ یک ساعت

دس روپئے دوں گدا کو بے مہلت

منقضی ہووے کب مری ہمت

صاحبان کرم کے تیں شاباش

ہو جو ان لوگوں میں گدا کا گذر

سہم رہ جائیں سب نہ دیکھیں ادھر

دیر کے بعد یہ کہیں ہل کر

شاہ جی لے خدا سبھوں کی خبر

سو بھی یہ بات ہے پس از کنگاش

یاروں کی جود کا بیاں کیا ہے

وہم میں ان کے بھی جہاں کیا ہے

آشکارا ہے سب نہاں کیا ہے

دیکھتے ہیں کہیں کہ یاں کیا ہے

ایسی صحبت میں ہم نہ ہوتے کاش

(۱۹)

بس قلم اب زباں کو اپنی سنبھال

خوش نما کب ہے ایسی قال و مقال

ہے کڈھب چرخ روسیہ کی چال

مصلحت ہے کہ رہیے ہوکر لال

فائدہ کیا جو راز کریے فاش

(911) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Mir Taqi Mir. is written by Mir Taqi Mir. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mir Taqi Mir. Free Dowlonad  by Mir Taqi Mir in PDF.