لندن کی ایک شام

یہ رہ گزر

یہ زن و مرد کا ہجوم یہ شام

فراز کوہ سے جس طرح ندیاں سر پر

لیے ہوئے شفق آلود برف کے پیکر

سفید جھیل کی آغوش میں سمٹ جائیں

یہ تند گام سبک سیر کارواں حیات

''نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم''

کدھر سے آئے کدھر جا رہے ہیں کیا معلوم

سنہری شام

یہ 'ای روس' جھلملاتا ہوا

بندھا ہوا ہے نشانہ کھنچی ہوئی ہے کماں

کسے یہ تیر لگے گا

کہاں؟ یہاں کہ وہاں!

نظر نظر سے ملی دل کا کام ختم ہوا

سنہری شام

یہ 'ای روس' جگمگاتا ہے

کوئی ہنسے کوئی روئے یہ مسکراتا ہے

اسی مقام پہ پھر لوٹ کر میں آیا ہوں

یہ رہ گزر یہ زن و مرد کا ہجوم یہ شام

یہ تند سیر سبک گام کاروان حیات

یہ جوش رنگ یہ طغیان حسن کے جلوے

یہیں کے نور سے روشن مری نگاہیں ہیں

مرے شباب کی روندی ہوئی یہ راہیں ہیں

وہی مقام ہے لیکن وہی مقام نہیں

یہ شام تو ہے مگر وہ سنہری شام نہیں

وہ رعب داب نہیں ہے

وہ دھوم دھام نہیں

وہ میں نہیں ہوں

کہ ان کا میں اب غلام نہیں

صنم کدوں میں اجالے نہیں رہے کہ جو تھے

کہ اب وہ دیکھنے والے نہیں رہے کہ جو تھے

(1028) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

London Ki Ek Sham In Urdu By Famous Poet Mohammad Deen Taseer. London Ki Ek Sham is written by Mohammad Deen Taseer. Enjoy reading London Ki Ek Sham Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohammad Deen Taseer. Free Dowlonad London Ki Ek Sham by Mohammad Deen Taseer in PDF.