قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات

قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات

تنہا کھڑی لرزتی رہی صرف میری ذات

تہذیب کی جو اونچی عمارت ہے ڈھا نہ دوں

جینے کے رکھ رکھاؤ سے ملتی نہیں نجات

خوابوں کی برف پگھلی تو ہر عکس دھل گیا

اپنوں کی بات بن گئی اک اجنبی کی بات

کانٹوں کی سیج پر چلوں شعلوں کی مے پیوں

سنگین مرحلوں کا سفر کون دے گا سات

سورج بھی تھک چکا ہے کہاں روشنی کرے

ورثے میں بٹ گئی ہے اندھیروں کی کائنات

سرگوشی بھی کروں تو بکھر جائے ایک گونج

بہروں کے اس ہجوم میں سنتا ہے کون بات

جھنجھلا کے کیوں نہ چھین لوں ٹوٹا ہے وہ عذاب

پھر وقت گھومتا ہے لئے درد کی زکات

(592) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Rauf Khalish. is written by Rauf Khalish. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Rauf Khalish. Free Dowlonad  by Rauf Khalish in PDF.