نظم

گھر سے آفس جاتے ہوئے

میں روز سڑک کے دائیں بائیں

درختوں کو گنتا ہوا چلتا ہوں

ہمیشہ گنے ہوئے درختوں کی تعداد مختلف ہوتی ہے

کبھی دو سو بیس

کبھی تین سو گیارہ

کبھی کبھی تو درختوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے

کہ مجھے گزشتہ دن کے اعداد و شمار پر

شک ہونے لگتا ہے

پر ایک دن پتا چلا

راستے کے درخت آدھے بھی نہیں رہے

کیا آدھے درخت کاٹ دئیے گئے ہیں

لیکن اگلے روز درختوں کی تعداد اتنی تھی

کہ میرا خود پر سے اعتماد اٹھ گیا

مجھے یوں لگا

جیسے کچھ درخت مجھے دیکھ کر

ادھر ادھر ہو جاتے ہیں

کچھ دوسرے درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں

کچھ درخت راتوں رات اس لیے اگ آتے ہیں

کہ مجھے حیران کر دیں

اور کچھ اس لیے غائب ہو جاتے ہیں

کہ میرا خود پر سے اعتماد ہی جاتا رہے

لیکن یہ بات بھی ایک دن غلط ثابت ہو گئی

میرے گھر سے دفتر تک کے راستے میں

کوئی درخت تھا ہی نہیں

یہ مجھے کئی لوگوں نے بتایا

دوسرے کئی لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی

کچھ نے یہ ماننے تک سے انکار کر دیا

کہ اس راستے پر کبھی کوئی درخت بھی تھا

اس روز جب میں اداس اور غمگیں

آفس سے گھر لوٹ رہا تھا

میرے راستے کے دونوں جانب

درخت سڑک پر نیچے تک جھک آئے تھے

ہر گھر کی چار دیواری کے اوپر سے

ایک نہ ایک درخت جھانک رہا تھا

گھروں کی بالکنیوں

اور چھتوں پر اگ آئے تھے درخت

کچھ درخت تو الٹے ہی کھڑے تھے

کچھ آدھے دیواروں میں

اور آدھے دیواروں کے شگافوں سے

باہر نکل کر

سڑک کو یوں تک رہے تھے

جیسے راہگیروں کو گن رہے ہوں

(542) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saeeduddin. is written by Saeeduddin. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saeeduddin. Free Dowlonad  by Saeeduddin in PDF.