اس سادہ دل سے کچھ مجھے باقرؔ گلہ نہ تھا

اس سادہ دل سے کچھ مجھے باقرؔ گلہ نہ تھا

وہ با وفا ہو کیا جو کبھی بے وفا نہ تھا

دل ان سے مل گیا ہے جو ملتے نہیں کبھی

جو مل گئے ہیں ان سے کبھی دل ملا نہ تھا

باندھا پر شکستہ نے رشتہ زمیں کے ساتھ

اڑنے کا شوق بھی مجھے حد سے سوا نہ تھا

منزل وفا کی تھی حد کونین سے پرے

کیا دل گرفتگاں کے لئے راستا نہ تھا

پھرتی تھی لے کے شورش دل کو بہ کو ہمیں

منزل ملی تو شورش دل کا پتا نہ تھا

طوفان بحر زیست میں خس کی مثال میں

پانی میں بہہ رہا تھا مگر ڈوبتا نہ تھا

ہاں جادۂ حیات میں تیری گلی بھی تھی

ہاں یہ بھی میری سست روی کا بہانہ تھا

دل ایسے پھر گئے کہ مقابل وہ آ گیا

جو میری سمت مڑ کے کبھی دیکھتا نہ تھا

ہاں وہ بھی دن تھے جب غم شیریں تھا بے ستوں

پر کوئی کوہ تلخیٔ جاں کاٹتا نہ تھا

اب آہ بھی بھریں تو چٹختا ہے جا بجا

سنگ گران غم سے جو دل ٹوٹتا نہ تھا

زنجیر کی صدا سے گریباں کے چاک تک

میرے بھی مشغلے تھے میں بے دست و پا نہ تھا

سر نے مرے دیا تجھے آشفتگی کا نام

تجھ کو تو کوئی شورش غم پوچھتا نہ تھا

باقرؔ خودی کو چھوڑ چلے کس کے واسطے

تم جس کو پوجتے تھے وہ کافر خدا نہ تھا

(478) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sajjad Baqar Rizvi. is written by Sajjad Baqar Rizvi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sajjad Baqar Rizvi. Free Dowlonad  by Sajjad Baqar Rizvi in PDF.