چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے

چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے

دل میں لہرائے خیالوں میں شرر چھوڑ گئے

جن کے سائے میں کبھی بیٹھ کے سستایا تھا

وہ گھنے پیڑ مری راہگزر چھوڑ گئے

منتظر ان کے لیے ہے کسی گرداب کی آنکھ

خود سفینوں کو جو ہنگام خطر چھوڑ گئے

قافلے نور کے اترے نہ کسی منزل پر

شب کے نم دیدہ کناروں پہ سحر چھوڑ گئے

خیرگی ہے کہ اترتی ہی نہیں آنکھوں سے

کن اندھیروں میں ہمیں شمس و قمر چھوڑ گئے

لے گئے لوگ جبینوں میں عبادت کا غرور

کتنے سجدوں کو مگر خاک بسر چھوڑ گئے

آئے آنکھوں میں نہ دم بھر کو سلگتے آنسو

پردۂ چشم پہ اک نقش مگر چھوڑ گئے

رات کے عکس جو شبنم میں اترنے آئے

کتنے پھولوں میں صمدؔ داغ جگر چھوڑ گئے

(551) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Samad Ansari. is written by Samad Ansari. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Samad Ansari. Free Dowlonad  by Samad Ansari in PDF.