شعور کی تہہ کے پھاٹکوں پر

میں جانتا ہوں

شعور کی تہہ کے پھاٹکوں پر

جو قفل ہے، وہ کلید بھی ہے

میں جانتا ہوں کہ پھاٹکوں کو

میں کھول سکتا ہوں، جب بھی چاہوں

مگر مجھے اپنے جسم کو بھینٹ کرنا ہوگا

کٹانا ہوگا بدن کو اپنے

کہ جوں ہی پھاٹک کھلیں گے مجھ کو

بشر سے حیوان بننا ہوگا

کروڑوں برسوں کے ارتقا کو پھلانگ کر پیچھے جانا ہوگا

شعور کی تہہ کے پھاٹکوں سے

پرے جو بیٹھی ہے کالی دیوی

وہی مجھے ''ارتقا'' سے پیچھے پھلانگنے کا پیام دے کر

یہ کہہ رہی ہے ''تم ایک حیواں تھے، ایک حیواں ہو

یہ بات اچھی طرح سمجھ لو''

میں سن رہا ہوں خود اپنی آواز میں یہ جملہ

کہ میں تو تم تک پہنچ گیا تھا گزشتہ شب

چاند کے نکلنے سے پیشتر ہی

لباس اترے ہوئے بدن پر

مری رگوں سے امڈتا میرا لہو

تو تم نے ضرور دیکھا ہے، کالی دیوی

وہ ہڈیاں جن سے گوشت نوچا گیا تھا میرا

سپید جیسے دھلی ہوئی ہوں!

اٹھو مرے لا شعور میں بیٹھی کالی دیوی

مجھے سمیٹو سیاہ باہوں میں آگے آ کر

کہ میں نے یہ بندگی اطاعت

خود اپنی مرضی سے، اپنے دل سے قبول کی ہے

مرا لہو، میری ہڈیاں، میرا گوشت

حتی کہ روح میری

تمہیں سمرپن ہے، میری دیوی

میں جانتا ہوں

شعور کی تہہ کے پھاٹکوں پر

جو قفل ہے وہ کلید بھی ہے

مگر کبھی اک سوال سا اپنا سر اٹھاتا ہے میرے دل میں

کلید کو پھینک دوں اگر تو؟

(455) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Satyapal Anand. is written by Satyapal Anand. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Satyapal Anand. Free Dowlonad  by Satyapal Anand in PDF.