جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے

تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے

دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا

گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے

تار نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل

آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے

جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی

گو جامہ زرد پہنے یا چیرہ لال باندھے

تیرے ہی سامنے کچھ بہکے ہے میرا نالہ

ورنہ نشانے ہم نے مارے ہیں بال باندھے

بوسہ کی تو ہے خواہش پر کہیے کیونکہ اس سے

جس کا مزاج لب پر حرف سوال باندھے

ماروگے کس کو جی سے کس پر کمر کسی ہے

پھرتے ہو کیوں پیارے تلوار ڈھال باندھے

دو چار شعر آگے اس کے پڑھے تو بولا

مضموں یہ تو نے اپنے کیا حسب حال باندھے

سوداؔ جو ان نے باندھا زلفوں میں دل سزا ہے

شعروں میں اس کے تو نے کیوں خط و خال باندھے

(658) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sauda Mohammad Rafi. is written by Sauda Mohammad Rafi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sauda Mohammad Rafi. Free Dowlonad  by Sauda Mohammad Rafi in PDF.