میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں

میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں

غزل کے خوش نما اسلوب ان کے ہاتھ آئے ہیں

یگانے اور بیگانے تعصب نے بنائے ہیں

وگرنہ سنبل و گل ایک ہی گلشن کے جائے ہیں

حقیقت ناگوار خاطر نازک نہ بن پائی

کچھ اس تکنیک سے ہم نے انہیں قصے سنائے ہیں

تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں

پئے اظہار ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں

نقاب رخ الٹ کر اس نے چشم شوق کے پردے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا اٹھائے ہیں گرائے ہیں

دمکتا ہے جبین ناز پر رنگ پشیمانی

اب ان سے کیا کہا جائے کہ یہ صدمے اٹھائے ہیں

لگاوٹ کی نگاہوں نے چراغ آرزو مندی

جلائے ہیں بجھائے بجھائے ہیں جلائے ہیں

جنہیں مینائے مے حاصل ہے جن کو درد پیمانہ

وہ جیسے آپ کے اپنے ہیں یہ جیسے پرائے ہیں

تغافل کی کوئی حد بھی تو ہونی چاہئے آخر

بالآخر بن بلائے ہم تری محفل میں آئے ہیں

نظر آتے ہیں تارے اس طرح ساون کی راتوں میں

کسی نے پھول کاغذ کے سمندر میں بہائے ہیں

یقیں ہے شادؔ مجھ کو کلیات نظم فطرت سے

گلوں نے رنگ و نکہت کے بہت مضموں چرائے ہیں

(539) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shaad Aarfi. is written by Shaad Aarfi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shaad Aarfi. Free Dowlonad  by Shaad Aarfi in PDF.