ہر در و دیوار پہ لرزاں کوئی پیکر لگے

ہر در و دیوار پہ لرزاں کوئی پیکر لگے

کتنی شکلوں کا پری خانہ ہمارا گھر لگے

دوڑتی جائیں رگوں میں نیلگوں خاموشیاں

دور تک پھیلا ہوا یوں دھند کا منظر لگے

بند کمرے میں بلائے جاں ہے احساس سکوت

اور باہر ہر طرف آواز کا پتھر لگے

جیسے جیسے ٹوٹتا جائے نگاہوں کا بھرم

شخصیت اپنی بھی اپنے آپ کو کم تر لگے

کانپ جاتا ہے صدائے دل سے صحرائے سکوت

اور اپنے پاؤں کی آہٹ سے بھی اب ڈر لگے

ایک بے معنی تجسس ایک بے معنی خلش

ایک شعلہ سا لپکتا جسم میں اکثر لگے

(506) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahid Mahuli. is written by Shahid Mahuli. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahid Mahuli. Free Dowlonad  by Shahid Mahuli in PDF.