سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے

کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے

جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے

بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا

چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے

ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے

اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگاہی کے لیے

اس زمانے سے کوئی توقع نہ رکھ کس میں ہمت ہے خنجر پہ رکھ دے زباں

عدل گاہوں میں انصاف بکنے لگا سچ بھی کہنا ہے جرم آدمی کے لیے

تم سے اک گھونٹ کی پیاس کیا بجھ سکی جب کہ وابستگی تو سمندر سے تھی

ہم نے دریاؤں تک کا سفر طے کیا اپنے بے معنی سی تشنگی کے لیے

آدمی کی ہوس کا ٹھکانا نہیں لیکن انجمؔ خدا سے یہی مانگنا

اک وفادار بیوی ہو بچے ہوں گھر اور کیا چاہئے زندگی کے لیے

(550) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahzad Anjum Burhani. is written by Shahzad Anjum Burhani. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahzad Anjum Burhani. Free Dowlonad  by Shahzad Anjum Burhani in PDF.