سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے

سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے

کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے

جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے

بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا

چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے

ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے

اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگہی کے لیے

(505) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahzad Anjum Burhani. is written by Shahzad Anjum Burhani. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahzad Anjum Burhani. Free Dowlonad  by Shahzad Anjum Burhani in PDF.