موت میری سکھی

موت میری سکھی

میرے ہی سنگ آنگن میں کھیلی بڑھی

میری پوشاک میرے دوپٹے پہ وہ اپنے ہی پیارے ہاتھوں سے

چاند اور تارے اگاتی رہی

زندگانی سے مجھ کو لڑاتی رہی

موت میری سکھی

میرے ہی سنگ کھانے کے لقمے بھرے

میں بھری چاند راتوں میں مٹی کی کوری صراحی سے

پانی پلاتی رہی

سردیوں کی ٹھٹھرتی سیاہ رات میں

اور سفیدے سے لبریز کہرے بھرے

دن کو اپنے کھلے بازوؤں میں بلاتی رہی

موت میری سکھی

میری تنہائیوں کی کڑی دھوپ میں

چھاؤں بن کر مرے ساتھ چلتی رہی

موت میری سکھی میری نبضوں کی وہ راز داں

میرے آنسوؤں کی سب آہٹیں اس کے ہاتھوں سے لکھی گئیں

نفرتوں اور محبت کی سب پرچیاں میرے دامن میں گرتی رہیں

موت میری سکھی ان کو چنتی رہی

آج میری سکھی موت میری سکھی

مجھ سے ہی روٹھ کے میرے گھر سے چلی

میں وداعی کے سب گیت ہونٹوں میں بھینچے

اسے دیکھتی ہی رہی

مجھے چھوڑ کر یوں نہ جاؤ

تمہارے بنا میرے آنگن کا تنہا شجر

سوکھتے سوکھتے ایک دن اس زمین پر بکھر جائے گا

اور معصوم چڑیاں بنا موت مر جائیں گی

زندگی سے جو ناتا ہے کٹ جائے گا

موت میری سکھی

آؤ پھر مجھ کو اوڑھو مجھے پہن لو

آؤ پھر مجھ کو اپنے گلے سے لگا لو

محبت سے پھر آسماں پر اٹھا لو

چلی آؤ میری سکھی

موت میری سکھی

(752) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shaista Habeeb. is written by Shaista Habeeb. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shaista Habeeb. Free Dowlonad  by Shaista Habeeb in PDF.