جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد

گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے

دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا

پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

فوارے کی طرح نہ اگل دے ہر ایک بات

کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے

اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ

ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے

(391) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shakeb Jalali. is written by Shakeb Jalali. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shakeb Jalali. Free Dowlonad  by Shakeb Jalali in PDF.