مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا

مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا

وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا

یہ دیکھنا تھا بچانے بھی کوئی آتا ہے

اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود ابھر بھی گیا

اے راستے کے درختو سمیٹ لو سایہ

تمہارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا

کسی طرح سے تمہاری جبیں چمک تو گئی

یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا

اسی پہاڑ نے پھونکے تھے کیا کئی جنگل

جو خاک ہو کے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا

یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے

وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا

وہ شاخ جھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے

شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا

(590) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shakeb Jalali. is written by Shakeb Jalali. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shakeb Jalali. Free Dowlonad  by Shakeb Jalali in PDF.