بس اک نگاہ کرم ہے کافی اگر انہیں پیش و پس نہیں ہے

بس اک نگاہ کرم ہے کافی اگر انہیں پیش و پس نہیں ہے

زہے تمنا کہ میری فطرت اسیر حرص و ہوس نہیں ہے

نظر سے صیاد دور ہو جا یہاں ترا مجھ پہ بس نہیں ہے

چمن کو برباد کرنے والے یہ آشیاں ہے قفس نہیں ہے

کسی کے جلوے تڑپ رہے ہیں حدود ہوش و خرد سے آگے

حدود ہوش و خرد سے آگے نگاہ کی دسترس نہیں ہے

جہاں کی نیرنگیوں سے یکسر بدل گئی آشیاں کی صورت

قفس سمجھتی ہیں جن کو نظریں وہ در حقیقت قفس نہیں ہے

کہاں کے نالے کہاں کی آہیں جمی ہیں ان کی طرف نگاہیں

کچھ اس قدر محو یاد ہوں میں کہ فرصت یک نفس نہیں ہے

قصور ہے عشرت گزشتہ کا حسن تاثیر اللہ اللہ

وہی فضائیں وہی ہوائیں چمن سے کچھ کم قفس نہیں ہے

کسی کی بے اعتنائیوں نے بدل ہی ڈالا نظام گلشن

جو بات پہلے بہار میں تھی وہ بات اب کے برس نہیں ہے

یہ بوئے سنبل یہ خندۂ گل اور آہ یہ دکھ بھری صدائیں

قفس کے اندر چمن ہے شاید چمن کے اندر قفس نہیں ہے

نہ ہوش خلوت نہ فکر محفل عیاں ہو اب کس پہ حالت دل

میں آپ ہی اپنا ہم نفس ہوں مرا کوئی ہم نفس نہیں ہے

کریں بھی کیا شکوۂ زمانہ کہیں بھی کیا درد کا فسانہ

جہاں میں ہیں لاکھ دشمن جاں کوئی مسیحا نفس نہیں ہے

سنی ہیں اہل جنوں نے اکثر خموشئ مرگ کی صدائیں

سنا یہ تھا کاروان ہستی رہین بانگ جرس نہیں ہے

چمن کی آزادیاں مؤخر تصور آشیاں مقدم

غم اسیری ہے نا مکمل اگر غم خار و خس نہیں ہے

نہ کر مجھے شرمسار ناصح میں دل سے مجبور ہوں کہ جس کا

ہے یوں تو کون و مکاں پہ قابو مگر محبت پہ بس نہیں ہے

کہاں وہ امید آمد آمد کہاں یہ ایفائے عہد فردا

جب اعتبار نظر نہ تھا کچھ اب اعتبار نفس نہیں ہے

وہی ہیں نغمے وہی ہیں نالے سن اے مجھے بھول جانے والے

تری سماعت سے دور ہیں یہ جبھی تو نالوں میں رس نہیں ہے

شکیلؔ دنیا میں جس کو دیکھا کچھ اس کی دنیا ہی اور دیکھی

ہزار نقاد زندگی ہیں مگر کوئی نکتہ رس نہیں ہے

(699) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shakeel Badayuni. is written by Shakeel Badayuni. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shakeel Badayuni. Free Dowlonad  by Shakeel Badayuni in PDF.