میں لوٹ آؤں کہیں تو یہ سوچتا ہی نہ ہو

میں لوٹ آؤں کہیں تو یہ سوچتا ہی نہ ہو

کہ رات دیر گئے تیرا در کھلا ہی نہ ہو

نہیں کہ زیست سے کچھ واسطہ پڑا ہی نہ ہو

میں کیسے مانوں ترا دل کبھی دکھا ہی نہ ہو

تلاش کر اسے دیوار و در کے چہروں میں

عجب نہیں تری محفل سے وہ اٹھا ہی نہ ہو

اک اعتماد وفا ہے کہ جی رہا ہوں میں

کہ میرے حال کا شاید اسے پتہ ہی نہ ہو

یہ راستہ تو اسی در پہ جا کے رکتا تھا

کہ وہ خفا ہے تو یہ راستہ مڑا ہی نہ ہو

میں یوں ہی اس سے خفا ہوں مگر مجھے ڈر ہے

منانے والا حقیقت میں خود خفا ہی نہ ہو

مجھے تو تجھ پہ خود اپنا گماں گزرتا ہے

ترا تھکا ہوا لہجہ مری دعا ہی نہ ہو

گناہ اور حسیں، اہرمن کے بس میں نہیں

ستم ظریف کوئی بندۂ خدا ہی نہ ہو

میں سوچتا ہوں کہ آپ اپنی دشمنی کیا ہے

مرا وجود مری ذات سے جدا ہی نہ ہو

بڑے بڑوں کے نشیب و فراز دیکھے ہیں

کوئی ملے تو سہی جس کا سر جھکا ہی نہ ہو

نہ جانے کتنے ہیں سیارگان نادیدہ

تو انتہا جسے کہتا ہے ابتدا ہی نہ ہو

وہ لاکھ غم سہی ایسا نہیں یہ دنیا ہے

کہ شاذؔ اس سے بچھڑ کر کبھی ہنسا ہی نہ ہو

(501) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shaz Tamkanat. is written by Shaz Tamkanat. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shaz Tamkanat. Free Dowlonad  by Shaz Tamkanat in PDF.