عدم کتھا

میں محبت کرتا اور زندہ رہنا بھول چکی ہوں

اور کھلونوں کے نئے کاروبار کا لطف اٹھا رہی ہوں

کھلونے مجھے بیچ رہے ہیں

موت کے ہاتھوں

جو ضرورتوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے بہروپ بدلتی ہے

کھلونے مجھے چابی دیتے ہیں

اور صبح ہو جاتی ہے

شام ہوتے ہوتے چابی ختم ہوتی ہے

اور ذہن میں بھڑکتے ہوئے شعلوں

یا دل میں چبھتی ہوئی ٹھنڈک کی طرح یادیں

رات بن جاتی ہیں

جیسے کسی بھوکے نوکر کو کام کروانے کی مجبوری میں

مزید بھوکا رکھا جاتا ہے

وہ میری آنکھوں میں جھانکے بنا سو جاتا ہے

وجود تک پہنچنے والے کبھی نہ کیے جانے والے سفر کے لیے

وہ آسمان تک جانا چاہتا ہے

اور میں گھر کی دیواریں بلند کرنا چاہتی ہوں

کھلونے اپنا وجود میرے دل سے اگاتے ہیں

اور مجھے یقین ہے

وہ وجود رکھتے ہیں

اور میں ان سارے مجبور دنوں کی طرح

عدم بن چکی ہوں

(645) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tanveer Anjum. is written by Tanveer Anjum. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tanveer Anjum. Free Dowlonad  by Tanveer Anjum in PDF.