نہ جانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی

نہ جانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی

دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی

لہو میری نسوں میں بھی کبھی کا جم چکا تھا

بدن پر برف کو اوڑھے ندی بھی سو رہی تھی

چمکتے برتنوں میں خون گارا ہو رہا تھا

مری آنکھوں میں بیٹھی کوئی خواہش رو رہی تھی

ہماری دوستی میں بھی دراڑیں پڑ رہی تھیں

اجالے میں نمایاں تیرگی بھی ہو رہی تھی

دباؤ پانیوں کا ایک جانب بڑھ رہا تھا

نہ جانے ساحلوں پر کون کپڑے دھو رہی تھی

کسی کے لمس کا احساس پیہم ہو رہا تھا

کہ جیسے پھول پر معصوم تتلی سو رہی تھی

(600) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tauqeer Abbas. is written by Tauqeer Abbas. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tauqeer Abbas. Free Dowlonad  by Tauqeer Abbas in PDF.