ایک منظر کی خاموشی

بہت دور

شہر سے باہر

شاید کسی اور شہر میں

ایک کمرہ ہے

اس کی ساری کھڑکیاں

صبح سے کھلی ہوئی ہیں

کوئی نہیں ہے جو انہیں بند کر دے

یا اس گرد کو صاف کر دے

جو دیوار پر لگے پورٹریٹ کو

دھندلا کر رہی ہے

ہوا نے گزرتے ہوئے

کاغذوں کو پیلا کر دیا

لوہے کی کرسی پر بیٹھ کے

اب کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا

رات گئے سنائی دینے والی

ٹرین کی آواز نہیں سنتا

شاید جاتے جاتے میز پر

کسی نے ڈکشنری کو کھول کر رکھ دیا ہے

سارے لفظوں کو کمرے میں بکھیر دیا ہے

بہت جلد یہ بھی چلے جائیں گے

کمرے میں آتی جاتی چڑیا کے ساتھ

اب وہاں صرف چڑیا ہے

ایک منظر کی خاموشی کو

کبھی کبھی ختم کرنے

یا ہمیشہ باقی رکھنے کے لیے

(991) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Manzar Ki KHamoshi In Urdu By Famous Poet Zeeshan Sahil. Ek Manzar Ki KHamoshi is written by Zeeshan Sahil. Enjoy reading Ek Manzar Ki KHamoshi Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Zeeshan Sahil. Free Dowlonad Ek Manzar Ki KHamoshi by Zeeshan Sahil in PDF.