جنگل

شہر کے آرے چلاتے بے سرے بد رنگ شور و غل سے دور

پاک رنگوں کا صنم آباد

پاک آوازوں کا اک گندھر و لوک

شہر والوں میں ہے جنگل جس کا نام

صبح جس کی ایک ارژنگ اور البم جس کی شام

وہ لچکتی فصل کے پہلو میں کہنی مار کر کلکاریاں بھرتی ہوا

جھنجھنا اٹھتے ہیں موٹے چمچماتے تار

ٹیپ پر جاتی ہے بل کھاتی ہوئی آواز

چھڑ گئی ہو دور جیسے جل ترنگ

دوڑتی ہے سنسنی ایسی امنگ

جیسے پانی میں ہزاروں مچھلیاں اک ساتھ کودیں اور چادر چیر جائیں

جیسے پکے کام والی ساڑیاں لہرائیں سرسر سرسرائیں

کن کنائیں جیسے ہنسوں کے ہجوم

گنگنائیں سرمدی نغمے نجوم

وہ سنہری چولیوں میں کسمساتے گول ابھرے سانولے ٹیلے

گول ابھرے سانولے ٹیلے سنہری تنگ روشن چولیاں

کسمساتے گول ابھرے سانولے گدرائے بھاری سخت ٹیلے

وہ سنہرے پن کو یاں واں پھاڑ کر خود پھٹ پڑا ہے شیام رنگ

بار سے ہے چاک چولی جھانکتا ہے سانولی دھرتی کا رنگ

(یاد آتا ہے یہاں تشبیہ کا سمراٹ کالی داس)

وہ کھجوروں کے درختوں کی قطار اندر قطار

ایک دم سیدھی کھڑی سمبندھ ریکھائیں زمین و آسماں کے درمیاں

آسمانی شامیانہ ان ستونوں کے سروں کو چھوڑ کر

بے ستوں گنبد سا خود لٹکا ہوا

آم کی ڈالوں پہ چکنے سبز پتے

سبز پتوں پر لٹکتی کیریاں

سبز ننھی کیریاں

رنگ، رس اور سواد کے خوابوں کی تعبیر کے انکھوئے کھل گئے

سبز پیلا سبز بھورا سبز کالا سبز زریں سبز نیلا

سبز سبز سبز سبز

سبز غالب رنگ کتنی جوڑیوں کے ساتھ ہے پھیلا ہوا

سبز غالب رنگ باقی رنگ گویا اس کے شیڈ

راس منڈل میں کنھیا سبز، باقی رنگ اس کی گوپیاں

تیز بے حد تیز بے دم ہانپتی موج ہوا کی لے

تیز بے حد تیز لیکن نغمہ ریز

جھومتا گاتا تھرکتا ناچتا ماحول

ایک لے میں رقص کرتے ہیں فضا دیہات جنگل کھیت

رقص میں ہے موج رنگ

موج میں آواز

اور پھر آواز میں خوشبو کا رقص

سب کے سب ہیں ایک لے کے دائرے میں ہم نوا ہم رقص باہم ایک

دور تک پھیلاؤ، آزادی، محبت، اور چنچل شانتی

ایک جیتی جاگتی تابندہ زندہ شانتی

پھولتے پھلتے سنورتے کر گزرنے کا کھلا امکان

شہر والوں میں ہے جنگل جس کا نام

(857) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Jangal In Urdu By Famous Poet Ameeq Hanafi. Jangal is written by Ameeq Hanafi. Enjoy reading Jangal Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ameeq Hanafi. Free Dowlonad Jangal by Ameeq Hanafi in PDF.