سنہری دروازے کے باہر

لرزتے بدن

رنگ کہرے میں لپٹے ہوئے

ادھ مری روشنی کا کفن اوڑھ کر

موت کی سر زمیں میں اجالوں پہ قربان ہونے سے پہلے

بہت دیر تک

اپنے احساس کی آنچ سہتے رہے

شام

نیم تاریک راہوں پہ ماتھا رگڑتی رہی

کانپتی تھرتھراتی شب غم کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے

بہت دیر تک

سرد فانوس کے پاس ٹھہری رہی

چاند

آکاش کے گہرے نیلے سمندر میں تاروں کی اندر سبھا سے

بہت دیر تک

موت کی سرزمیں پر اجالوں کی گل پوشیاں کر رہا تھا

لحد تا لحد کوئی سایہ نہ خاکہ

قدم تا قدم منزلوں کے نشاں گم

مکینوں سے خالی مکانوں کے در

تختیاں رہنے والوں کے ناموں کی لے کر

بہت دیر تک منتظر تھے مگر

کوئی دستک نہ آہٹ

ادھر

بے زباں شہر کی تیرگی میں

لرزتے بدن

کیف و کم کے بدلتے ہوئے زاویوں میں

الجھتے چھلکتے بکھرتے سمٹتے رہے

اور کہرے میں لپٹے ہوئے

شاخ در شاخ روشنی سے گزر کر

صلیبوں کے سائے میں دم لے رہے ہیں

(762) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Sunahri Darwaze Ke Bahar In Urdu By Famous Poet Farooq Nazki. Sunahri Darwaze Ke Bahar is written by Farooq Nazki. Enjoy reading Sunahri Darwaze Ke Bahar Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Farooq Nazki. Free Dowlonad Sunahri Darwaze Ke Bahar by Farooq Nazki in PDF.