اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے

اسی فتور میں کرب و بلا سے لپٹے ہوئے

تمام عمر گنوا دی انا سے لپٹے ہوئے

ابھی بھی مل نہ سکی ان کی خامشی کو زباں

یہ لوگ اب بھی ہیں صوت و صدا سے لپٹے ہوئے

ہوا کے شہر میں بس سانس لینے آتے ہیں

وگرنہ اہل زمیں ہیں خلا سے لپٹے ہوئے

ہر ایک سمت لگا ہے خموشیوں کا ہجوم

یہ کون لوگ ہیں کوہ ندا سے لپٹے ہوئے

ہنسی بھی آتی ہے ان پر ترس بھی آتا ہے

یہ نفرتوں کے پجاری خدا سے لپٹے ہوئے

ہم ابتدا ہی میں پہنچے تھے انتہا کو کبھی

اب انتہا میں بھی ہیں ابتدا سے لپٹے ہوئے

میں زندگی کے مسائل سے لڑنا چاہتا ہوں

مگر وہ ہاتھ نگار حنا سے لپٹے ہوئے

وگرنہ ختم نہ ہوتا گہن کبھی آذرؔ

اندھیرے خوف زدہ تھے ضیا سے لپٹے ہوئے

(898) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Isi Futur Mein Karb-o-bala Se LipTe Hue In Urdu By Famous Poet Faryad Aazar. Isi Futur Mein Karb-o-bala Se LipTe Hue is written by Faryad Aazar. Enjoy reading Isi Futur Mein Karb-o-bala Se LipTe Hue Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Faryad Aazar. Free Dowlonad Isi Futur Mein Karb-o-bala Se LipTe Hue by Faryad Aazar in PDF.