تضاد

میں سوچتا ہوں

میں ایک انسان ہوں ایک مشت غبار ہوں میں

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا

کہ ایک آواز سرسرائی فضا کی خاموش وسعتوں میں

پلٹ کے دیکھا

کوئی ہوائی جہاز پرواز کر رہا تھا

جو لمحہ لمحہ بلندیوں کی طرف رواں تھا

میں اس کو تکتا رہا مسلسل

نہ جانے کب تک

نہ جانے اس لمحۂ گریزاں کے تنگ دامن میں کتنی صدیاں سمٹ گئی تھیں

نہ جانے میری نظر میں کتنے نئے افق جگمگائے

کتنے ہی چاند سورج ابھر کے ڈوبے

نہ جانے وہ کون سا جہاں تھا

زمیں کہ پاؤں تلے کوئی فرش زر ہو جیسے

فلک کہ سر پر ردائے آب گہر ہو جیسے

فضا منور

ہوا معطر

نفس نفس میں بسی ہوئی نکہت گل تر

خلاؤں میں مشتری و زہرہ کا رقص جاری

تمام عالم پہ ہلکا ہلکا سرور طاری

نہ جانے میں کس خیال میں گم

کس ابر پارے پہ اڑ رہا تھا

غرور سے سر بلند کر کے ہر اک ستارے کو دیکھتا تھا

کہ ایک دل دوز چیخ گونجی فضا کی خاموش وسعتوں میں

میں چونک اٹھا

پلٹ کے دیکھا

گلی سے اک ہڈیوں کا ڈھانچہ گزر رہا تھا

جو چیخ کر ایک اک سے کہتا تھا ''ایک روٹی

خدا تمہارا بھلا کرے گا''

(896) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Tazad In Urdu By Famous Poet Himayat Ali Shayar. Tazad is written by Himayat Ali Shayar. Enjoy reading Tazad Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Himayat Ali Shayar. Free Dowlonad Tazad by Himayat Ali Shayar in PDF.