ہے جان حزیں ایک لب روح فزا دو

ہے جان حزیں ایک لب روح فزا دو

اے کاش کہ اس ایک کی ہو جائیں دوا دو

تھا خار جگر ہجر میں تنہا غم دوری

ہیں آفت جاں وصل میں اب شرم و حیا دو

مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگۂ ناز

آنکھیں ہیں کہ ہیں جام مئے ہوش ربا دو

جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوش بلا یہ

دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلف دوتا دو

ہے عین عنایت جو نشاں پوچھئے میرا

یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو

کیا دام فریب اس نے بچھایا ہے دل آویز

دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو

گر ناز خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ

کیوں آئینہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو

بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی

دو محرم اسرار ہیں تو پردہ کشا دو

دو گیسو و دو زلف بلا خیز ہیں چاروں

ہاں کاکل خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو

وہ طرز و روش ہائے وہ انداز و ادا حیف

کیا بچتے دل و جان کجا چار کجا دو

سیریٔ نظر بھی نہ ہوئی ہائے میسر

آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیر قضا دو

(798) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Hai Jaan-e-hazin Ek Lab-e-ruh-faza Do In Urdu By Famous Poet Ismail Merathi. Hai Jaan-e-hazin Ek Lab-e-ruh-faza Do is written by Ismail Merathi. Enjoy reading Hai Jaan-e-hazin Ek Lab-e-ruh-faza Do Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ismail Merathi. Free Dowlonad Hai Jaan-e-hazin Ek Lab-e-ruh-faza Do by Ismail Merathi in PDF.