کباڑ خانہ

اک دن اپنے کمرے میں میں

بیٹھا بیٹھا سوچ رہا تھا

جتنی ہیں بے کار کی چیزیں

سب کو آج میں یکجا کر لوں

اور کباڑی کو دے آؤں

گھر میں اک کمرہ ہے جہاں پر

بہت سی چیزیں پڑیں ہوئی ہیں

جس میں

میرے کام کا کچھ بھی نہیں ہے

اک لاٹھی ہے اک بٹوہ ہے

کتھے چونے کی ڈبیا ہے

کہیں سروتا پڑا ہوا ہے

ٹنگی ہے کونے میں اک چھتری کالی کالی

جس کو چوہوں نے قطرہ ہے جگہ جگہ سے

اک لکڑی کی کرسی بھی ہے

بوڑھی سی اور لنگڑی‌ لولی

اس کمرے کے اک کونے میں

اک چوپائی پڑی ہوئی ہے

اپنی قسمت کو روتی ہے

بالکل اس کے بازو میں ہی

بوڑھا سا اک تخت رکھا ہے

کیڑے جس کو چاٹ رہیں ہیں

تخت کے آگے بالکل آگے

چیتے کی اک کھال پڑی ہے

بھونسا بھر کے رکھا ہوا تھا جس کے اندر

اب تو وہ چوہوں کا ایک محلہ ہے

کچھ ہرنو کے سر بھی ہیں دیوار پہ لٹکے اب تک

جن کے اوپر اب چڑیوں نے اپنے اپنے تاج محل تعمیر کیے ہے

کچھ تلواریں خوں کی پیاسی پیاس بجھانے تڑپ رہیں ہیں

اک طوطے کا پنجرہ بھی ہے

ایک صراحی رکھی ہوئی ہے

اک بیمار سا حقہ بھی ہے

کھانستا رہتا ہے جو اب

شاید کینسر نے اس کو بھی جکڑا ہے

اک لکڑی کی الماری بھی کونے میں خاموش کھڑی ہے

جس میں کچھ بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہیں

اک صندوق ہے جس کے اندر کچھ زیور ہیں

جن کی قیمت اب بازار میں کچھ بھی نہیں

کچھ جرمن اور کانسے پیتل کے برتن بھی رکھے ہیں

ایک تجوری بھی رکھی ہے

جس کو دیکھ کے اب تک ساری چیزیں جلتی ہیں

اک نا بینا چشمہ بھی ہے

اک پگڑی بھی رکھی ہوئی ہے

کچھ جوتے چپل بھی ہیں جو

اوندھے چتے لیٹے ہیں

ٹوٹے پھوٹے سے اک دو ہاتھ کے پنکھے بھی ہیں

اور اک طاق میں چند کتابیں

بھوکی پیاسی چیکھ رہیں ہیں

اک کونے میں کچھ تصویریں پڑی ہوئی ہیں

میرے پرکھوں کی تصویریں

جن کے اوپر دھل جمی ہے

پرکھوں کی یہ شان و شوکت

اک کمرے میں بند پڑی ہے

(559) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Kabaad-KHana In Urdu By Famous Poet Mohsin Aftab Kelapuri. Kabaad-KHana is written by Mohsin Aftab Kelapuri. Enjoy reading Kabaad-KHana Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohsin Aftab Kelapuri. Free Dowlonad Kabaad-KHana by Mohsin Aftab Kelapuri in PDF.