ورثہ

یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

کتنے ذہنوں کا لہو کتنی نگاہوں کا عرق

کتنے چہروں کی حیا کتنی جبینوں کی شفق

خاک کی نذر ہوئی تب یہ نظارے بکھرے

پتھروں سے یہ تراشے ہوئے اصنام جواں

یہ صداؤں کے خم و پیچ یہ رنگوں کی زباں

چمنیوں سے یہ نکلتا ہوا پر پیچ دھواں

تیری تخلیق نہیں ہے مری تخلیق نہیں

ہم اگر ضد بھی کریں اس پہ تو تصدیق نہیں

علم سولی پہ چڑھا تب کہیں تخمینہ بنا

زہر صدیوں نے پیا تب کہیں نوشینہ بنا

سینکڑوں پاؤں کٹے تب کہیں اک زینہ بنا

تیرے قدموں کے تلے یا مرے قدموں کے تلے

نوع انساں کے شب و روز کی تقدیر نہیں

یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

تیرا غم کچھ بھی سہی میرا الم کچھ بھی سہی

اہل ثروت کی سیاست کا ستم کچھ بھی سہی

کل کی نسلیں بھی کوئی چیز ہیں ہم کچھ بھی سہی

ان کا ورثہ ہوں کھنڈر یہ ستم ایجاد نہ کر

تیری تخلیق نہیں تو اسے برباد نہ کر

جس سے دہقان کو روزی نہیں ملنے پاتی

میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق

فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے

فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق

پل سلامت ہے تو تو پار اتر سکتا ہے

چاہے تبلیغ بغاوت کے لیے ہی اترے

ورنہ غالبؔ کی زباں میں مرے ہمدم مرے دوست

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

سوچ لے پھر کوئی تعمیر گرانے جانا

تیری تعمیر سے ہے جنگ کہ تخریب سے جنگ

اہل منصب ہیں غلط کار تو ان کے منصب

تیری تائید سے ڈھالے گئے تو مجرم ہے

میری تائید سے ڈھالے گئے میں مجرم ہوں

پٹریاں ریل کی سڑکوں کی بسیں فون کے تار

تیری اور میری خطاؤں کی سزا کیوں بھگتیں

ان پہ کیوں ظلم ہو جن کی کوئی تقصیر نہیں

یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

تیرا شکوہ بھی بجا میری شکایت بھی درست

رنگ ماحول بدلنے کی ضرورت بھی درست

کون کہتا ہے کہ حالات پہ تنقید نہ کر

حکمرانوں کے غلط دعووں کی تردید نہ کر

تجھ کو اظہار خیالات کا حق حاصل ہے

اور یہ حق کوئی تاریخ کی خیرات نہیں

تیرے اور میرے رفیقوں نے لہو دے دے کر

ظلم کی خاک میں اس حق کا شجر بویا تھا

سالہا سال میں جو برگ و ثمر لایا ہے

اپنا حق مانگ مگر ان کے تعاون سے نہ مانگ

جو ترے حق کا تصور ہی فنا کر ڈالیں

ہاتھ اٹھا اپنے مگر ان کے جلو میں نہ اٹھا

جو ترے ہاتھ ترے تن سے جدا کر ڈالیں

خواب آزادی انساں کی یہ تعبیر نہیں

یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں

سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے

(1069) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sahir Ludhianvi. is written by Sahir Ludhianvi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sahir Ludhianvi. Free Dowlonad  by Sahir Ludhianvi in PDF.