مسکرا کر خطاب کرتے ہو

مسکرا کر خطاب کرتے ہو

عادتیں کیوں خراب کرتے ہو

مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر

کیا یہ کار ثواب کرتے ہو

مفلسی اور کس کو کہتے ہیں!

دولتوں کا حساب کرتے ہو

صرف اک التجا ہے چھوٹی سی

کیا اسے باریاب کرتے ہو

ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے

تم کسے انتخاب کرتے ہو

خار کی نوک کو لہو دے کر

انتظار گلاب کرتے ہو

یہ نئی احتیاط دیکھی ہے

آئنے سے حجاب کرتے ہو

کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی

کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو

ہو چکا جو حساب ہونا تھا

اور اب کیا حساب کرتے ہو

ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا

روز شغل شراب کرتے ہو

کتنے بے رحم ہو عدمؔ تم بھی

ذکر عہد شباب کرتے ہو

ہو کسی کی خوشی گر اس میں عدمؔ

جرم کا ارتکاب کرتے ہو

(2627) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Muskura Kar KHitab Karte Ho In Urdu By Famous Poet Abdul Hamid Adam. Muskura Kar KHitab Karte Ho is written by Abdul Hamid Adam. Enjoy reading Muskura Kar KHitab Karte Ho Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Abdul Hamid Adam. Free Dowlonad Muskura Kar KHitab Karte Ho by Abdul Hamid Adam in PDF.