راستے میں شام کا مقدر ہونا

اس کے لہجے میں شام ہو رہی تھی

اور راستے راستوں کو چھوڑتے ہوئے

کسی اور راستے پر جا رہے تھے

اس کا بدن خود سے الگ ہونے کے لئے

اپنے ہی بدن سے پوچھ رہا تھا

کنوارے رہنے کی تپسیا اکارت گئی

کسی چاہنے والے کو

اس نے ایک بوسہ بھی نہیں دیا

اس کی مٹی نے کسی اور مٹی کو چھوا ہی نہیں

شریعت کی آمریت کو

خود اس نے ہی دعوت دی تھی

ورنہ خدا سے کسی غلط کو

غلط چھونے کی بات تو کبھی ہوئی ہی نہیں تھی

اور کوئی ہم سے بھول کے

ہماری آخری خواہش بھی نہ پوچھے

ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں

ڈوبتے ہوئے جہاز میں بھاگنے والے

آخری چوہے کو بھی تو

کسی نے بھی نہیں دیکھا

سوائے اس کے کہ

ڈبونے والے پانی نے

خود کو دیکھا

یا ڈوبنے والے کو دیکھا

محبت جن رنگوں سے

بنی ہوئی کہانی تھی

اس کے کسی بھی کردار کو

اس نے کبھی بھولے سے بھی پاس نہ آنے دیا

ایک ٹھنڈی جامد بساط پر دوڑتی ہوئی

مایوسی کو

پرندہ بننے کی خواہش تو ضرور رہی ہوگی

مگر کیا کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ

کسی بوتل سے کاگ ارنے کے منظر میں

بوتل کے باطن پر کیا گزرتی ہے

کسی غلط منہ سے نکلے ہوئے لفظ سے

زندگی کی آب و ہوا پر کیا گزرتی ہے

دنیا میں ہونے والے کسی بھی ظلم نے

بس مثال ہی تو قائم کی

ایک تاریخ ہی تو بنائی

ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ایک پتھر سے

ان گنت ہتھیاروں تک

درمیان میں

زمانے تو ان گنت رہے ہوں گے

یا تاریخ تو ایک ہی تھی

کسی غلط کو سہی میں بدلنے کی خواہش

دنیا کا نظام بدل سکتی تو

آج تک ہم غلط خواب

نہ دیکھ رہے ہوتے

پھر یہ عذاب کیا ہے کہ

ہم ایک پوری زندگی

غلط خوابوں کے حوالے کرتے ہوئے

خود خواب ہو جائیں

یہ اور بات کہ

پر اسرار غیب میں

یقین نہ رکھنے والے کو بھی

کسی بھی غیب سے

کچھ پانے یا مدد لینے کی

خواہش تو ہوتی ہے

اور خواہش کا کیا ہے

خواہش اگر زمین پر رینگنے والی

چیونٹی بھی ہو تو

وہ ہاتھی کو ہلاک کر سکتی ہے

ایک چیونٹی ہاتھی کو

اس لئے ہلاک کر دیتی ہے کہ

اسے اس کے سر تک

پہننے کی راہ کا گیان

آدمی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے

افسوس کہ چیونٹی سے زیادہ

گیان والا آدمی تو

زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا

افسوس پہاڑ کی چڑھائی چڑھنے

اور اونچی چوٹیوں کو

سر کرنے والوں میں سے

کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا

جو پہلے زندگی نام کے ہاتھی کے سرکی

چڑھائی چڑھتا یا اس کے سر کو

سر کر چکا ہوتا

آدمی نے گھر بنایا

اس میں رہنے کے لئے

مگر وہ اس میں کبھی رہا اس لئے نہیں کہ

روئے زمین پر

کسی بھی گھر کا باطن نہیں بن سکا

ایک پوری دنیا کا ظاہر تو

ہماری نظر میں رکھ دیا گیا

مگر باطن سے بنی ہوئی

کوئی دنیا تو بنی ہی نہیں

تو ہم کیا دیکھتے

یا دکھانے والوں سے ہم کیا کہتے

یا اس سے کیا کہتے

جس کے لہجہ میں شام ہونے سے پہلے

دن کی روشنی کی

کوئی بساط تو رہی ہوگی

پلٹ کے کچھ دیکھنے کی ادا بھی

نہیں معلوم تھی

ورنہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ

اسے اسباب سے بھری ہوئی دنیا سے

کچھ میسر آیا

نہیں کچھ بھی تو نہیں

یا جو دنیا

اسباب سے بھری ہوئی دکھائی گئی

وہ خود اپنی جگہ تھی بھی یا نہیں

اور اس کی کوئی بھی شے

اپنی جگہ تھی بھی یا نہیں

(1623) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Raste Mein Sham Ka Muqaddar Hona In Urdu By Famous Poet Ahmad Hamesh. Raste Mein Sham Ka Muqaddar Hona is written by Ahmad Hamesh. Enjoy reading Raste Mein Sham Ka Muqaddar Hona Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ahmad Hamesh. Free Dowlonad Raste Mein Sham Ka Muqaddar Hona by Ahmad Hamesh in PDF.