سفر ایسا ہے کہاں کا

جس جہان میں میری آواز نے مجھے چھوڑا تھا

وہ اب میری سماعت سے پرے ہے

مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا

مشکل یہ ہے کہ آدمی بہت کچھ سن سکتا نہ دیکھ سکتا ہے

پھر بھی شاید کچھ ایسا ہوتا ہے کہ

کسی بھی مرنے والے آدمی کی

آنکھوں کی کگار پر جب اس کی

جان ٹھہر جاتی ہے

تو اس کے نام کا پرندہ

اسے اچانک اڑا لے جاتا ہے

یہ موت ہوتی ہے

سوائے اس کے کہ مرنے والا اسے دیکھ نہیں سکتا

مجھے یاد نہیں

کہ میں نے کس سے محبت کی

اور کس سے نفرت کی

سوائے اس کے کہ میں نے وہ سارے گناہ کیے

جو مجھے اس لیے یاد ہیں

کہ ایک عمر تک انہیں

مجھ میں رچایا بسایا اور کھلایا پلایا گیا

مجھے یاد ہے

کہ میں نے کوئی ایسی غذا نہیں کھائی

جو میری روح میں اتر جاتی

مجھے یاد ہے

کہ میں نے کوئی ایسا لباس نہیں پہنا

جو میرے باطن میں اتر جاتا

میں زندگی بھر بھوکا رہا

اور ننگا رہا

یہاں تک کہ میرے پاس

راہ حق میں کچھ دینے کے لیے بھی نہیں

نہ کوئی نیکی نہ کوئی برائی

(913) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Safar Aisa Hai Kahan Ka In Urdu By Famous Poet Ahmad Hamesh. Safar Aisa Hai Kahan Ka is written by Ahmad Hamesh. Enjoy reading Safar Aisa Hai Kahan Ka Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ahmad Hamesh. Free Dowlonad Safar Aisa Hai Kahan Ka by Ahmad Hamesh in PDF.