یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے

قطرہ میں سمندر ہے ذرہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے

دوزخ بگریباں ہے فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی

جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے

پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی

پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامۂ طوفاں ہے

اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں

جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂ حیراں ہے

سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے

اک شورش بے حاصل اک آتش بے پردا

آفت کدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا بازیچہ ہے لذت کا

جو کنج قفس میں تھا وہ اصل گلستاں ہے

اک غنچۂ افسردہ یہ دل کی حقیقت تھی

یہ موجزنی خوں کی رنگینئ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسم ہے

اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے

اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

(892) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ye Ishq Ne Dekha Hai Ye Aql Se Pinhan Hai In Urdu By Famous Poet Asghar Gondvi. Ye Ishq Ne Dekha Hai Ye Aql Se Pinhan Hai is written by Asghar Gondvi. Enjoy reading Ye Ishq Ne Dekha Hai Ye Aql Se Pinhan Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Asghar Gondvi. Free Dowlonad Ye Ishq Ne Dekha Hai Ye Aql Se Pinhan Hai by Asghar Gondvi in PDF.